تازہ ترینکالمز

20 فروری 1951 نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی تدفین

تحریر :- محمد الطاف

اسی کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں

مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا

خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا

چوہدری رحمت علی، جنہیں "پاکستان” کا نام تجویز کرنے اور تحریک پاکستان کی بنیاد رکھنے کا سہرا جاتا ہے، کی وفات اور تدفین کی کہانی ان کی زندگی کی مشکلات اور قربانیوں کی عکاس ہے۔

3 فروری 1951ء کو برطانیہ کے شہر کیمبرج میں نمونیا کے باعث ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت وہ انتہائی کسم پرسی، تنہائی، اور مالی مشکلات کا شکار تھے، حتیٰ کہ ان کی تدفین کے اخراجات بھی کیمبرج کے ایمانویل کالج نے اٹھائے، جہاں کے ماسٹر نے انہیں کیمبرج سٹی قبرستان میں دفن کروایا ۔
چوھدری رحمت علی نے اپنی زندگی کے اخری دو تین سال کا بیشتر حصہ کیمبرج میں گزارا ان کا اخری پتہ 114 چیری ہنسٹن روڈ تھا مگر یہ گھر 1973 میں گرا دیا گیا تھا چوہدری صاحب مسٹر ایم سی کرین کے کرائے دار تھے جس کا خود چند سال پیشتر انتقال ہو چکا تاہم ان کی بیوی مسز کرین بقید حیات تھی اور اسے چوہدری رحمت علی اچھی طرح یاد تھے مسز کرین نے بتایا کہ ہر جمعہ کے روز نماز جمعہ کے لیے دوپہر کے وقت چوہدری صاحب کے دوست ان کے ہاں جمع ہو جاتے تھے مسز کرین کو ان کی اخری بیماری بھی یاد تھی ان کے مطابق چوھدری رحمت علی اپنی دیکھ بھال اچھے طریقے سے نہیں کرتے تھے جنوری کے مہینے میں سخت سردیوں کی ایک رات کو موسم کی ضرورت کے مطابق انہوں نے کپڑے نہ پہن رکھے تھے اور باہر چلے گئے واپس ائے تو انہیں سخت سردی لگ گئی تھی ان کے ایک دوست نے انہیں "”ایو لائن نرسنگ ہوم” میں علاج کی غرض سے داخل کروا دیا اگلے روز ہفتے کو جب مسز کریم چوہدری رحمت علی کی بیمار پرسی کے لیے گئیں تو ایک نرس نے انہیں بتایا کہ وہ وفات پا گئے ایمانویل کالج کے کیمبرج کے ریکارڈ کے مطابق چوھدری رحمت علی کو کیمرج شہر کے قبرستان کی قبر نمبر 8330 بی میں امانتا” دفن کیا گیا ھے

چوہدری رحمت علی صاحب اپنے اخری ایام میں 114 چیری ہینڈسٹن روڈ کیمرج پر قیام پزیر تھے اس رہائش کے باوجود وہ اپنی خط و کتابت 16 ماؤنٹین گوئیو روڈ کے ایڈریس سے کرتے تھے ان کا معمول تھا کہ ہر روز وہاں سے اپنی ڈاک خود جا کر وصول کرتے تھے چوھدری صاحب حسب معمول 29 جنوری 1951 کو اپنی ڈاک وصول کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلے گھر سے نکلتے وقت وہ اپنا اوور کوٹ پہننا اور چھتری ساتھ لے جانا بھول گئے شام کا وقت تھا موسم بھی سخت سرد تھا اور سرد ہوا چل رہی تھی راستہ میں اچانک بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے وہ بری طرح بھیگ گئے سرد موسم میں بارش کے بھیگنے سے ان پر کپکپی طاری ہو گئی وہ اسی حالت میں 16 ماؤنٹین گویو روڈ پہنچ گئے جب مالکہ مکان مس وائسن نے چوھدری صاحب کی یہ حالت دیکھی تو اس نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کچھ دیر اگ سینک لیں اور اپنے کپڑے خشک کر لیں اس طرح ان کی حالت بہتر ہو جائے گی مگر چوھدری صاحب وہاں نہ رکے اور اپنی ڈاک وصول کر کے اپنی رہائش کا پر اگئے یہاں پہنچنے کے بعد انہیں انفلوئیزا ہو گیا 31 جنوری تک چوھدری صاحب اپنے گھر پر ہی رہے مس وائسن کو معلوم ہوا تو چوہدری صاحب سخت بیمار ہیں تو اس نے 31 جنوری کو ازراہ ہمدردی انہیں چیری ہینسٹن روڈ پر واقعہ”” ایوی لائن نرسنگ ہوم ہسپتال”” میں علاج کی غرض سے داخل کروا دیا اور انہیں کمرہ نمبر 28 میں داخل کروا دیا گیا دو تین دنوں میں چوھدری صاحب کا انفلوئنزا بگڑ گیا اور انہیں سخت نمونیہ ہو گیا ہسپتال میں ڈاکٹر لیسلی کرلی ان کا علاج کرتے رہے لیکن چوھدری صاحب صحت یاب نہ ہو سکے بالاخر چوںدری رحمت علی 03 فروری 1951 بروز ہفتہ بوقت ایک بجے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور انہیں 17 دن بعد 20 فروری 1951 بروز منگل بوقت تین بجے برطانیہ کیمبرج سٹی کے عیسائی قبرستان میں دفن کیا گیا

مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور

رکھ لی میرے خدا نے میری بے کسی کی لاج
(سید محمد یعقوب ہاشمی صاحب ایک سیکرٹری تعلیم و قانون علی حکومت ازاد جموں)

ایمانویل کالج کیمرج کے خط 7 مارچ 1989 کے مطابق ان کی لاش وہاں امانت کے طور پر دفن ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب چوھدری رحمت علی کا انتقال ہوا تھا تو اس وقت وہ بالکل قلاش تھے چنانچہ ان کی تدفین کا خرچہ ان کے کالج کے ایمانویل نے ادا کیا مگر ایک نقل سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلم لیکچرار محمد عزت ہندیہ نے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات یعنی چھ پاؤنڈ اور 16 شلنگ ادا کیے تھے بجا طور پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس مسلمان لیکچرار نے اپنے زیر نگرانی اسلامی طریقے پر ان کو دفن بھی کروایا ہوگا اس نیک دل مسلمان لیکچرار کا پتہ 11 ہیلتھ روڈ کیمبرج لکھا ہے
اس خط کو پڑھ کر فیصلہ کر لیجیے کہ کیا یہ پاکستان کے لیے شرم کا مقام نہیں دوستو افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں پاکستان میں وہ لوگ بھی جنہوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں میں حصہ لیا تھا نہ صرف برداشت کیے گئے بلکہ ملک ازاد ہونے کے صرف پانچ سات سال کے اندر اندر ان میں سے بعض برسر اقتدار بھی رھے مگر وہ شخص جس نے اپنی ساری زندگی اپنی دولت اور جاگیر اگرچہ اس کی مقدار زیادہ نہ تھی پاکستان کے لیے وقف کر دی تھی وہ نہ صرف بے کسی کی حالت میں مرا بلکہ ایک انگریز کی مہربانی سے ہسپتال میں داخل ہوا اور کسی کے اہتمام سے دفن کیا گیا
ستم ظریفی کا حال تو یہ تھا کہ ان کی وصیت کے مطابق انہوں نے اپنے یونیورسٹی کے پروفیسر کے نام وصیت نامہ لکھا تھا کہ میں چونکہ مسلمان ہوں میری تدفین کسی مسلمان سے کروائی جائے اور مجھے کفن پہنایا جائے اور میری باقاعدہ نماز جنازہ ادا کی جائے 17 دن تک اس مرد درویش کی میت مردہ خانہ میں پڑی رہی کوئی پرسان حال نہ تھا اخر کار دو مصری مسلمان طالب علم ساتھی میسر ہوئے جنہوں نے انہیں غسل دیا کفن پہنایا ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی

وفات کے بعد کی صورت حال کچھ حوصلہ افزا نہ تھی وصیت اور تدفین کی جدوجہد کے سلسلے میں چوہدری رحمت علی کی خواہش تھی کہ انہیں پاکستان میں دفنایا جائے، لیکن مالی اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ سات دھائیاں اور کتنے سال گزرنے کے باوجود بھی اب تک ان کا جسد خاکی،، باقیات کیمبرج کی قبر نمبر 8330 میں "امانتاً” پڑی ہیں حالانکہ تدفین کے وقت ان کی میت کو خاص قسم کے تابوت میں بند کیا گیا تھا- تابوت کی خاص تیاری ان کے کیمبرج یونیورسٹی کے استاد مسٹر ویلبورن نے تابوت کو سیسے کی دھات سے بنوایا تھا، تاکہ مستقبل میں پاکستان منتقلی آسان ہو سکے ۔
اس سلسلے میں مختلف ادوار میں سیاسی و سماجی تنظیموں کی وساطت سے حکومتی کوششیں بھی ہوتی رہیں اور رکاوٹیں بھی اتی رہیں مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکیں
پاکستانی عوام اور حکومت کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں عدالتی اجازت اور این او سی کا مسئلہ 2017ء میں برطانوی عدالت نے ان کی جسد خاکی ‘ باقیات کی منتقلی کی اجازت دے دی، لیکن پاکستانی حکومت سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) حاصل کرنا ضروری تھا۔
مگر این او سی جاری نہ ہونے سے عمل رکا رھا
چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کے لیے مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں کوششیں کرتی رہیں یہ کوششیں مشرف دور میں بھی ہوتی رہیں سیاسی وعدے ہمیشہ تعطل کاشکار رہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے وعدے ہوئے، لیکن عملی اقدامات نہیں ہو سکے۔ وزارت خارجہ نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشن سے رجوع کرنے کو کہا، مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی

پاکستان کی اسلامی ، تاریخی اور سیاسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانا ایک تاریخی اہمیت ھے اور موجودہ تناظر میں چوہدری رحمت علی کی تدفین کا معاملہ صرف ایک شخص کی آخری خواہش تک محدود نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی قومی شناخت اور تاریخی ورثے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی وصیت کی تکمیل نہ ہونا اس ملک کے لیے ایک ادھورا باب ہے جس ملک کو چوھدری رحمت نے نام کی شناخت بطور "”””پاکستان "””دی جس پر عملدرآمد قومی یکجہتی اور تاریخی انصاف کا تقاضا کرتا ہے

نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال کے بعد فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جاوید اقبال بھی بار بار یہ سچ بیان کر گئے کہ علامہ اقبال نے علیحدہ وطن کا تصور نہیں دیا تھا بلکہ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں مسلم اکثریتی صوبوں کا ذکر تھا ۔
علامہ اقبال خود بھی بار بار اپنے خطوط میں یہ واضح کر گئے کہ ان کا خطبہ الہ آباد متحدہ وفاق کے اندر مسلم صوبوں کے تصور پر مبنی تھا ۔ علامہ اقبال نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اسکیم چوہدری رحمت علی کی سکیم ہے ۔
اس کے بعد بھی کیا وجہ ہے کہ چوہدری رحمت علی کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہو رہا؟
جبکہ سب جانتے ہیں کہ وہی حقیقت میں
نقاش پاکستان ہیں ۔ جنہوں نے 1933ء میں حصول پاکستان کا تصور دیا
پاکستان کا نام رکھا اور
پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی ۔
بانی تحریک پاکستان چوہدری رحمت علی متحدہ وفاق یا انڈین یونین کی بجائے مسلمانوں کی مکمل آزادی کی بات کرتے تھے ۔

(The Millat of Islam and the Menance of Indianism, 1942)

میں انہوں نے قوم سے پرزور مطالبہ کیا کہ :
’’اس لیے یہ کمانڈمنٹ کہ ’’مائنورٹی ازم ‘‘سے بچئے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی اقلیت کو ہندو علاقوں میں نہیں چھوڑنا چاہیے ، بے شک برٹش اور ہندو انہیں نام نہاد دستوری تحفظات ہی کیوں نہ دیں ۔ کیونکہ کسی قسم کے تحفظات بھی قومیت کانعم البدل نہیں ہوسکتے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے ۔۔۔اس کا مطلب ان کو پشت در پشت ڈی نیشنلائز کرنے والی ’’ انڈین ازم ‘‘ کی (ہندو) طاقتوں کے دوبدو رکھناہے ، جس کا مقصد ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ وہ ہم سب کو اپنے اندر جذب کر لے ۔ ۔۔ ( اس کا مطلب ) اُس سانحہ کے نتائج کو بھلا دینا ہے جس سے ہماری اقلیتوں کو گزرنا پڑا ، جنہیں ایسے وقت میں جو ہمارے (مسلمانوں کے ) لیے آج سے زیادہ بہتر تھا اور جو گارنٹی اب ممکن ہے اس سے بہتر گارنٹی(بھی) ۔۔۔ ہم نے سسلی ، اٹلی ، فرانس ، پرتگال ، سپین، آسٹریلیا اور ہنگری میں چھوڑا ۔۔ وہ (مسلم)اقلیتیں اب کہاں ہیں ؟ ۔۔ اس سوال کے پوچھنے پر جواب نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں ہی مل سکتا ہے ۔ ۔۔ ان حالات کی بناء پر ہمیں درج بالا صداقت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے اور ’’ مائنورٹی ازم ‘‘ سے بچنا چاہیے ۔ چونکہ یہ تاریخ کا افضل ترین سبق ہے اور اس کو بھلا دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس راز کو بھلا دیا ہے جس میں ہماری نجات ہے ، ہمارا ڈیفنس ہے اور ملت کی حیثیت میں ہماری تقدیر پوشیدہ ہے‘‘۔
چوہدری رحمت علی ؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا تو ان کا وہی حال ہو گا جو یورپ میں مسلم اقلیتوں کا ہوا کہ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ۔ وہ بات آج بھارت کا انتہا پسند ہندو توا ثابت کر رہا ہے ۔
لہٰذا اے مسلمانو!
غیرت مند پاکستانیو!
اپنے رب کا شکر ادا کرو اور اپنے اس عظیم محسن کی میت کو واپس لا کر وطن میں دفن کرو جس نے تمہیں اس آزادی کی راہ دکھلائی ۔ ورنہ آج تمہارا بھی وہی حال ہوتا جو بھارت ، سنگیانگ ، کشمیر ، فلسطین ، بوسنیا ، البانیہ ، چیچنیا کے مسلمانوں کا ہے
مسلمانوں غیرت کھاو !
اپنے عظیم محسنوں سے احسان فراموش نہ کرو
انھیں عزت اور احترام کے ساتھ وطن میں جگہ دو ۔
اے مسلمانو! جان لو کہ سب انڈین یونین ،متحدہ ھندوستان کی بات کر رہے تھے مگر صرف ایک چوہدری رحمت علی تھے جو کہتے تھے کہ نہیں مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ اسلام کے ڈیتھ وارنٹ پر دست خط کے مترادف ہوگا
سمجھ جاو کہ چوہدری رحمت علی ہی بانی تحریک پاکستان ،نقاش پاکستان ھیں مگر افسوس کی بات ہے کہ سیکولر طبقہ نے اور انگریز کے پٹھو مافیا نے بانی تحریک پاکستان چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو بھی پاکستان میں برداشت نہ کیا
لفظ خالق پاکستان چوہدری رحمت علی کی پاکستان میں تدفین سے پوری قوم دوبارہ سے مسلم قومیت کی بنیاد پر متحد و مستحکم ہو سکتی ھے کیونکہ رنگ نسل زبان یا صوبائیت کبھی بھی اس پاکستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں کر سکتی سوائے مسلم قوم میت کے کیونکہ ہمارے درمیان ایک اسلام ہی مشترک بنیاد ہے جس پر تمام صوبے تمام برادریاں تمام اکائیاں اکٹھی ہو کر اس ملک پاکستان کی کروڑوں عوام کو ہجوم سے نکال کر ایک قوم کی شکل میں لے جا سکتے

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

کیونکہ وہ پاکستان کی جڑ ہیں چودری رحمت علی نے 1915 میں بزم شبلی میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے اجلاس میں سیاسی تقریر میں یہ بات اپنے انقلابی ہندو اور سکھ دوستوں سے کہہ دی تھی کہ ہم مسلمان ہیں ہم دوسرے تسی مذہب کی حمایت کس طرح کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اپ ہندو ہیں تو اپ کو ہندو انقلاب کی کوشش کرنا ہوگی ہم مسلمان ہیں ہم اسلامی انقلاب کے لیے کوشش کریں گے دیکھیں گے کون اس میں کامیاب ہوتا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنا ایک شعر بھی کہا تھا

ہوگا ایک دن بارگاہ حق میں بار یاد

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
گویا کہ برصغیر کی سوئی ہوئی مسلمان قوم کو دوبارہ سے اسلامی انقلاب کی طرف چوہدری رحمت علی نے بلایا اور بالاخر وہی نعرہ اس پاکستان کے حصول کی ضمانت بنا
ا تحریک ازادی پاکستان کے تمام محسنوں کو ان کا اصل مقام دینا ہوگا اور چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان لانا ہوگا جو کروڑوں پاکستانی عوام کے دلوں کی خواہش ہے

میری نماز جنازہ بھی پڑھائی غیروں نے

مرے تھے جن کے لیے وہ رھے وضو کرتے

شکریہ

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button