تازہ ترینکالمز

محبت انسانی ہمدردی کا دوسرا نام پرنس کریم آغا خان

گردش

اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا اور دنیا بھر میں اپنی دولت مندی، فلاحی و رفاہی خدمات اور لامحدود سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت مشہور زمانہ شخصیت پرنس کریم آغا خان چہارم 4 فروری 2025 کو پرتگال کے شہر لزبن میں 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ آبا و اجداد کا تعلق ایران سے، رہائشی تعلق ہندوستان سے، پیدائش سویٹزرلینڈ میں، بچپن نیروبی میں، تعلیم ہارورڈ یونیورسٹی سے، زندگی کا طویل عرصہ قیام فرانس میں، شادیاں برطانوی اور جرمن خواتین سے اور ہاں ہمدردی، محبت اور انسانی عظمت کے بہت بڑے روا دار جبکہ اپنی دولت، اثر و رسوخ اور خدمات و اقدامات سے لاکھوں غریبوں کی زندگیوں میں خوشحالی لانے والے پرتگال میں موت سے بغلگیر ہوئے۔ یہ تھا پرنس کریم آغا خان چہارم کی زندگی کا منظر نامہ۔

بچپن سے جن بڑی شخصیات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی ان میں سے ایک پرنس کریم آغا خان چہارم بھی شامل تھے۔ ان کی عزت، شہرت، شخصیت اور مقبولیت سے غیر معمولی انسان ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ ایک فرد ہوتے ہوئے بھی ان کی طاقت، دولت اور اثر و رسوخ کئی ریاستوں سے زیادہ تھیں۔ عقائد اور نظریات اپنی جگہ لیکن انسانی فلاح و بہبود اور اپنی کمیونٹی کے لیے بہترین خدمات سر انجام دینے کے لیے اس شخص کو خصوصی امتیاز حاصل تھا۔ کمیونٹی کے تعلیم، صحت اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے پرنس کریم آغا خان چہارم کا کردار حد درجہ قابلِ تعریف ہے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم، جن کا پورا نام شاہ کریم الحسینی ہے، پرنس کریم آغا خان چہارم کے طور پر دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ عالمگیر شہرت کی حامل یہ شخصیت اسماعیلی فرقے کے روحانی رہنما تھے۔ وہ 13 دسمبر 1936 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ انہیں 11 جولائی 1957 کو اپنے دادا سر آغا خان سوم کے انتقال کے بعد اسماعیلی مسلمانوں کے 49 ویں امام کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ سر آغا خان سوم نے روایت سے ہٹ کر بیٹے کے بجائے پوتے کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنے دور امامت میں تعلیم، صحت اور معاشی خوشحالی جیسے شعبوں میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کی قیادت میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) نے دنیا بھر میں غربت کے خلاف موثر کام کیا ہے اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کامیاب کوششیں انجام دیں ہیں۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کو ان کی انسان دوست خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ وہ بین المذاہب ہم آہنگی اور ثقافتی تبادلے کے بھی زبردست حامی تھے۔ ان کی قیادت میں اسماعیلی برادری نے دنیا بھر میں اپنا ایک مثبت اور فعال کردار ادا کیا ہے۔

اسماعیلی فرقہ دو بڑی شاخوں پر مشتمل ہے۔ ایک نزاری اور دوم بوہرہ کہلاتا ہے۔ نزاری فرقہ پرنس کریم آغا خان کا پیروکار ہے۔ یہ فرقہ امام کو شارع مطلق مانتا ہے جبکہ بوہرہ فرقے میں داعی مطلق کا تصور پایا جاتا ہے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم دورانِ تعلیم ہی جانشین بن گئے تھے اور اسی زمانے میں امامت کا منصب انہیں سونپ دیا گیا تھا جس سے وقتی طور پر ان کی تعلیم منقطع ہوئی تھی، تاہم 1958ء میں انہوں نے دوبارا تعلیم کا چھوڑا سلسلہ جوڑا اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں گریجویشن کی ڈگری لی، اس دوران انہوں نے مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالات بھی لکھے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم نے اکتوبر 1969ء میں سلیمہ نامی برطانوی لڑکی سے شادی کی تھی، جس سے تین بچے پیدا ہوئے، مگر 25 سال بعد ہی اسے طلاق دے دی۔ اس کے بعد 1998ء میں جرمن خاتون بیگم انارہ کے ساتھ دوسری شادی کی، جس سے دو بچے پیدا ہوئے۔ مگر پھر چند سال کے بعد بیگم انارہ کو بھی طلاق دے دی۔ پرنس کریم آغا خان نے پہلی بیوی کو طلاق دیتے وقت بیس ملین ڈالرز کی رقم آدا کی جبکہ دوسری بیوی کو پچاس ملین ڈالرز آدا کرنے پڑے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر میں لوگوں کی مالی، معاشی، تعلیمی اور فلاحی مدوں میں مدد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ ان کا بنایا ہوا ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور وہ بیک وقت اس ادارے سے منسلک کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا رہا۔ پرنس کریم آغاخان چہارم کو کئی بین الاقوامی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے تھے جبکہ عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے رہے۔ ان کے مشاغل میں گھوڑ سواری، اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی تھے۔

1957 اور 1958 کے دوران میں جہان مسلمانوں اور دیگر غیر مسلم برادریوں کے درمیان مختلف وجوہ سے کشمکش جاری تھی تو پرنس کریم آغا خان چہارم نے مختلف فرقوں اور مذاہب کے درمیان در آنے والی دُوریوں کو ختم کرنے اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی فسادات کی وجہ سے کشیدگی اپنی عرُوج پر تھی۔

1972 میں جب یوگینڈا میں صدر لودی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا تھا کہ جنوبی ایشیاٰ کے باشندوں بالخصوص نزاری اسماعیلیوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ 90 دنوں کے اندر اندر ملک چھوڑ دیں تو پرنس کریم آغا خان نے اس وقت کے کینیڈین وزیر اعظم پیری ٹروڈو سے ان تمام لوگوں کو کینیڈا میں بسانے کی درخواست کی جیسے وزیر اعظم نے فوراً قبول کر کے اپنے ملک میں انہیں بسنے کی اجازت دے دی۔

پرنس کریم آغا خان چہارم نے اپنی گراں قدر فلاحی خدمات اور کوشیش زندگی بھر جاری رکھیں۔ کمیونٹی کے فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کی خاطر باقاعدہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بیناد رکھی۔ یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 سے 40 ممالک میں غربت سے نجات دلانے اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے تقریباً 80،000 کارکنوں کے ساتھ موثر انداز میں کام کر رہا ہے۔ اے کے ڈی این کے ساتھ مختلف ادارے منسلک ہیں، جن میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ھیلتھ سرویسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سرویسز، آغا خان ایکنومک سرویسز، آغاخان ایجنسی فار مائیکرو فائینینس کے علاوہ فوکس قابل ذکر پراجیکٹس ہیں جن کی براہ راست آغا خان نگرانی کر رہے تھے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان اور چترال کی ترقی میں پرنس کریم آغا خان کی کردار نہایت ٹھوس ہے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم نے جب 1960 میں پہلی بار گلگت بلتستان ہنزہ تشریف لائیں تو آپ نے خود وہاں کے لوگوں کی حالات زندگی معلوم کر کے کافی پریشان ھوئے تھے جس کے بعد آپ کی رہنمائی میں ایک جامع حکمت عملی تیار ہوئی اور 1980 میں آغاخان فاؤنڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغاخان ھیلتھ سرویسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کی خدمات نہ صرف اسماعیلی جماعت تک محدود تھیں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرمِ عمل رہیں، آپ کی ان خدمات کو سراہتے ھوئے آپ کو دنیا کے بے شمار خطابات، اعزازات اور القابات سے نوازا گیا تھا، جن میں 1936 تا 1957 آپ کو پرنس کریم آغا خان اور 1957 سے اب تک ہزہائینس دی آغا خان چہارم اور 1959 سے 1979 تک ہزرائل ہائینس دی آغا خان چہارم کا خطاب دیا گیا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کو 1977 سے 2009 تک کی اعداد و شمار کے مطابق دُنیا کے 20 ممالک نے اپنی قومی اعزازات سے نوازا گیا تھا، دُنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے آپ کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور دُنیا کے تقریباً 21 ممالک نے 48 ایوارڈز سے آپ کو آپ کی شاندار اور گراں قدر خدمات اور اسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر نوازا گیا۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آپ کو نشان امتیاز سے عطا کیا گیا تھا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کا قائم کردہ آغا خان ٹرسٹ ساری دنیا میں فلاحی کاموں کے لیے مشہور ہے۔ یہ ٹرسٹ خاص طور پر اسلامی اور تاریخی مقامات کی حفاظت کا کام کر رہا ہے۔ مصر میں فاطمی حکمرانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں کی دیکھ بھال اور تزئین وآرائش نیز ان کے مقبروں کی حفاظت کا کام بھی یہ ٹرسٹ کر رہا ہے۔ دلی میں واقع مقبرہ ہمایوں کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کی ذمہ داری اسی ٹرسٹ نے لے رکھی ہے۔ علاوہ ازیں آگرہ اور دوسرے تاریخی شہروں میں بھی یہ ٹرسٹ تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کی خصوصی کوششوں اور خدمات و اقدامات کی بدولت اسماعیلی فرقے کے لوگ بہترین تعلیم، تہذیب، تحسین اور تادیب کے سبب بے حد جدت پسند اور خوشحال واقع ہوئے ہیں اور یہ لوگ عموماً جدید طرز زندگی کے ساتھ جینا پسند کرتے ہیں۔ اسماعیلی فرقے کے لوگ عام طور پر خبروں سے دور رہتے ہیں اور اپنے کاموں، مشاغل اور مقاصد میں پوری طرح مگن بھی۔

پرنس کریم آغا خان چہارم کے پاس اگر چہ بے تحاشا دولت تھی مگر یہ وہ صرف نمود و نمائش اور عیش و عشرت کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ عوامی اور فلاحی کاموں کے لیے ہر وقت استعمال کرتے رہتے تھے۔ ان کے ٹرسٹ کی جانب سے دنیا بھر میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے کئی تعلیمی، رفاعی اور فلاحی پروگرام چلتے رہیں۔ وہ اپنی دولت سے اسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کرتے رہیں اور اپنی کمیونٹی میں بیداری اور خوشحالی کے لیے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لاتے رہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button