لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے معاملے نے پورے صوبے میں ہلچل مچادی ہے۔ اس کیس کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بنائی گئی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔
کمیٹی نے متاثرہ طالبہ اور اس کے والدین سے ان کے گھر پر تقریباً 3 گھنٹے ملاقات کی۔ منگل کے روز 36 افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ اس دوران، طالبہ اور اس کے والدین نے سوشل میڈیا پر جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔
ہائی پاور کمیٹی کے اجلاس میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر عارف چوہدری، کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اور دیگر حکام شامل تھے۔ کمیٹی نے واقعے کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا۔
متاثرہ طالبہ اور اس کے والدین نے واضح کیا کہ بچی 2 اکتوبر کو گھر میں بیڈ سے گری، جس کے بعد اس کا علاج مختلف ہسپتالوں میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ زیادتی کا جھوٹا واقعہ منسوب کیا جا رہا ہے، جو کہ حقیقت سے بعید ہے۔
متاثرہ بچی نے 3 اکتوبر سے 15 اکتوبر تک کالج سے باقاعدہ چھٹی لی، اور اس دوران ان کا نام اس جھوٹے واقعے کے ساتھ جوڑا گیا۔
کمیٹی نے اس معاملے کی انکوائری کے لیے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل میں 7 رکنی کمیٹی بھی قائم کردی ہے، تاکہ ڈس انفارمیشن اور افواہوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔
متاثرہ بچی اور اس کے والدین نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ جھوٹے الزامات لگانے والے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندان کے لیے مشکلات کا باعث بنا ہے بلکہ اس نے سماجی میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی افواہوں کے خطرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ حکام کا عزم ہے کہ سچائی کی تلاش کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد کے حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے گا۔