عوام کا درد اور حکومتی لاپروائی

تحریر:آصی اسلام آباد
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام شہریوں کی زندگیوں کو ایک طوفان میں جھونک دیا ہے۔ بجلی، گیس، فون، پانی کے بل اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ہر ماہ آنے والے بلوں کا خوف لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے، جیسے ہر دروازے پر موت کا پیغامبر دستک دے رہا ہو۔
بجلی اور گیس: بجلی اور گیس کے بل
بجلی اور گیس کے بلوں میں ہونے والے اضافے نے لوگوں کے گھروں کو اندھیرے اور سردی میں دھکیل دیا ہے۔ گرمیوں میں بجلی کے بل آسمان سے باتیں کرتے ہیں، جبکہ سردیوں میں گیس کے بل نے لوگوں کو گرم کپڑوں میں لپیٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر ماہ کا بل جیسے کسی بھاری بوجھ کی طرح دل و دماغ پر سوار ہو جاتا ہے۔
فون اور انٹرنیٹ: رابطے کی قیمت
فون اور انٹرنیٹ سروسز کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ موبائل کمپنیوں کے پیکجز، کال، ایس ایم ایس، اور ڈیٹا چارجز میں خودمختار اضافہ صارفین کو پریشان کر رہا ہے۔ PTCL کی ناقص خدمات اور بار بار بڑھتی ہوئی قیمتوں نے صارفین کو بے بس کر دیا ہے۔ شکایات درج کرانے پر بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی، جیسے کہ ایک بے حس دیوار سے بات ہو رہی ہو۔
پانی: زندگی کی بنیاد
پانی کے بل بھی عوام پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں پانی کی فراہمی غیر تسلی بخش ہے اور لوگوں کو صاف پانی کے لئے جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے۔ پانی، جو زندگی کی بنیاد ہے، اب عوام کے لئے ایک مشکل خواب بنتا جا رہا ہے۔
### ضروریاتِ زندگی: خوراک کا بحران
آٹا، چینی، دالیں اور سبزیاں جیسے بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ بازاروں میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ کی روزی روٹی کی جنگ اور بھی مشکل ہو گئی ہے۔
گوشت اور انڈے: بڑھتی ہوئی قیمتیں
مرغی کے زندہ وزن کی قیمت 440 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ ہر روز مرغی کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور انڈوں کی قیمتیں بھی اس کی رفتار کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ انڈے، جو کبھی سستی اور دستیاب پروٹین کا ذریعہ تھے، اب ایک عیاشی بن چکے ہیں۔
بڑے گوشت کی قیمت 1200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ یہ قیمتیں عام شہریوں کی جیبوں پر بھاری بوجھ ڈال رہی ہیں۔ ہفتے میں ایک بار گوشت کھانا بھی ایک خواب بن چکا ہے۔ چھوٹے گوشت کی قیمتیں 2200 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ قیمتیں غریب اور متوسط طبقے کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔
انسانی المیے: دردناک واقعات
بجلی کے بلوں کے بوجھ سے متاثر ہوکر فیصل آباد کے ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کو ذبح کر دیا۔ اس کے علاوہ، مہنگائی کے سبب 3 سے 4 متعدد خودکشیوں کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔ غریب تو غریب، سفید پوش اور امیر طبقہ بھی اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ غریب لوگ تو خودکشی سے بھی ڈرنے لگے ہیں کیونکہ کفن دفن کے اخراجات بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔
پرائیویٹ ملازمین: نظر انداز شدہ طبقہ
پرائیویٹ ملازم پیشہ افراد خصوصاً اس مہنگائی کا شکار ہیں جن کے لئے زندگی گزارنا ناممکن ہو گیا ہے۔ حکومتیں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 25 سے 50 فی صد بڑھا دیتی ہیں، لیکن پرائیویٹ اداروں، خصوصاً میڈیا گروپس میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات انہیں پوری تنخواہیں بھی نہیں ملتیں۔
نتیجہ: عوام کی چیخ و پکار
عوام کی چیخ و پکار سنائی دینے لگی ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر اقدامات اٹھائے اور عوام کو اس بوجھ سے نجات دلائے۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو عوام کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی، اور ملک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستانی عوام کی حالت ایک کامیڈی بن چکی ہے۔ خانہ جنگی اور معیشت کی تباہی سر پہ ہے۔ ارباب اختیار اپنے محلات میں عیاشی سے جی رہے ہیں جبکہ مجبور، بے کس مزدور، پرائیویٹ ملازمین، اور چھوٹے کاروباری افراد قبر میں جانے کے دن گن رہے ہیں۔