sui northern 1

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ماضی اور حال

0
Social Wallet protection 2

پچاس سال پہلے ملک کے ایک سندھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز اوپن یونیورسٹی اسلام آباد تین بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی تھی
– کہ یونیورسٹی کے ذریعے روایتی طریقہ تعلیم سے باہر رہنے والے غریب طبقات کو گھر کی دہلیز پر سستی اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے، تاکہ وہ قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں

sui northern 2

-کہ یونیورسٹی عوام کو ترجیحی بنیادوں پر فنی اور ہنری تعلیم فراہم کرے، تاکہ وہ روزگار حاصل کرکے باعزت زندگی گزار سکیں

-کہ یونیورسٹی قومی یکجہتی کی علامت بنے اور اس میں چاروں صوبوں کی یکساں نمائندگی نظر آئے

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس ادارے کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو پاکستان کے ہر ادارے کے ساتھ ہوا ہے۔

اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ کر یہ ادارہ "ریسرچ، اعلی تعلیم، کیٹیگری” وغیرہ کے چکر میں آج چند پروفیسر صاحبان اور لالچی افسران کی فرمائشوں، آسائشوں اور خواہشوں کی تکمیل میں مصروف ہے، عام آدمی کی زندگی میں بدلائو گیا بھاڑ میں۔

دوسری طرف نام نہاد ٹیکنالوجی، جدت اور انتظامی امور کے نام پر بے تحاشا پیسا لٹا کر، تعلیمی فیس کو اتنا مہنگا کیا گیا ہے، کہ غریب طبقات یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے، لہذا داخلوں میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔

تیسری طرف جس ادارے کو قومی شناخت کا سمبل ہونا چاہیے تھا، اس میں آئین پاکستان، صوبائی کوٹہ اور اجتماعی ترقی کی جگہ مخصوص صوبہ اور مخصوص طبقہ کی اجارہ داری قائم کی گئی ہے. جس کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان جیسے چھوٹے صوبوں کی یونیورسٹی کے اندر کوئی نمائندگی نہیں رہی۔

اپنے بنیادی مقاصد سے کھلم کھلا روگردانی کرنے کے باوجود، آج ھم اس یونیورسٹی کی پچاس سالہ کامیابی کا جو "جشن” منا رہا ہیں، اس کا اخلاقی، آئینی اور علمی جواز کہاں سے تلاش کیا جا سکتا ہے؟

میرا خیال ہے کہ ارباب اختیار، مقتدر حلقوں اور عوام الناس کو میری ان گزارشات پر سنجیدگی سے غور کر کے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو صحیح معنوں میں ایک قومی ادارہ بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔

والسلام
انعام اللہ شیخ
سابق ڈائریکٹر جنرل
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد

Leave A Reply

Your email address will not be published.