شوگراور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ مرتے ہیں،ماہرین صحت
اسلام آباد(نیوزڈیسک) پاکستان میں غیر متعدی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ مرتے ہیں، جبکہ روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان دُنیا میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔اگر فوری پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو خدشہ ہے کہ 2045 تک ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 62 ملین تک بڑھ جائے گی۔ اگر ان بیماریوں کے modifiable risk factors کو کنٹرول کیا جائے تو ان بیماریوں کے پھیلاؤ کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور مشروبات کی مصنوعات خاص طور پر جن میں چینی، نمک اور/یا ٹرانس فیٹس زیادہ ہو ان مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ ان کی کھپت اور اس سے منسلک صحت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ثبوت پر مبنی حکمت عملی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے بیماریوں کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے فنانس بل 2024-25 میں تمام الٹرا پروسیسڈ مصنوعات اور میٹھے مشروبات پر ایکسائز ٹیکس میں اضافے کی حمایت کریں۔ اس اقدام سے نہ صرف صحت کے مسائل میں کمی آئے گی بلکہ اضافی حکومتی محصول بھی حاصل ہو گا، جسے صحت عامہ کے پروگراموں اور پھلوں، سبزیوں، دالوں اور بغیر میٹھا دودھ جیسے صحت مند متبادلات کے لیے سبسڈی کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔ پالیسی سازوں کو مشروب سازی کی صنعت کو سرمایہ کاری کے نام پر گمراہ کرنے کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ مشروبات کی صنعت کے یہ ہتھکنڈے جو نہ پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی ملکی معیشت کے لیے۔ حکومت کو ایسے کسی بھی سرمایہ کاری کے منصوبے کو مسترد کرنا چاہیے جو صحت کے شعبے اور اس وجہ سے ملک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ڈال کر مصائب میں اضافہ کرے۔ یہ بات اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے زیر اہتمام پارلیمنٹرینز کے ساتھ پری بجٹ سیمینار میں کہی گئی جس میں پارلیمینٹیرینز، حکومتی عہدیداروں، سول سوسائٹی اور میڈیا نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
پناہ کے صدر میجر جنرل (ر) مسعود الرحمان کیانی نے کہا کہ پاکستان میں ہر ڈیڑھ منٹ میں ایک شخص کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ دیگر غیر متعدی بیماریاں بھی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ اگر ان بیماریوں کے قابل تبدیل خطرے والے عوامل کو کنٹرول کیا جائے تو ان بیماریوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ غیر صحت بخش غذا جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز اور مشروبات کی مصنوعات ان بیماریوں کی بڑی وجوہات ہیں۔ ان میں چینی، سوڈیم اور ٹرانس فیٹس کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ حکومت ان غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرے۔
گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے کنٹری کوآرڈینیٹر جناب منور حسین نے کہا کہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ ان مشروبات کی کھپت کو کم کرنے کے لیے پہلا اور سب سے موثر پالیسی آپشن ہے، ”پاکستان میں ذیابیطس کے علاج پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 2021 میں $2640 تھا جو کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی قسط سے دوگنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زیابیطس کے 30 فیصد خطرے کی وجہ میٹھے مشروبات اور جوس کا زیادہ استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک اور ریاستیں پہلے ہی میٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس لگا چکی ہیں تاکہ ان کے مضر صحت ہونے کی وجہ سے ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔” پاکستان کے بارے میں عالمی بینک کی ایک سٹڈی کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اگر حکومت تمام میٹھے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 50 فیصد کرتی ہے، تو اس سے، صحت پر ہونے والے اخراجات میں 8.9 ملین امریکی ڈالر کی بچت ہو گی اور اگلے دس سال تک 810 ملین ڈالر کا اوسط سالانہ ٹیکس حاصل ہوگا. انہوں نے پارلیمنٹیرینز سے بات کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ اس آمدنی کو مکمل یا جزوی طور پر صحت عامہ کے پروگراموں کے لیے مختص کریں اور صحت مند آپشنز پر سبسڈی دیں۔
کرنل ڈاکٹر شکیل احمد مرزا نے کہا کہ میٹھے مشروبات اور جوسز ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر، گردے کی خرابی اور دیگر دائمی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ پاکستان میں مرتے ہیں، روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی ذیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ حکومت کو جنگی بنیادوں پر اس سے نمٹنا چاہیے اور ان بیماریوں کے قابل تبدیل خطرے والے عوامل پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔
جناب ثناء اللہ گھمن نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ مشروبات کی صنعت کے ہتھکنڈوں سے متاثر نہ ہوں۔ حکومت کو دیہی معیشت اور مشروبات کی صنعت کے ذریعے برآمدات کے نام پر سرمایہ کاری کے ایسے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرنا چاہیے جو صحت کے شعبے اور اس وجہ سے ملک کی معیشت پر بھاری بوجھ ڈال کر لوگوں کی ہلاکتوں اور مصائب میں اضافے کا باعث بنے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مشروبات کی صنعت پر بہت کم ٹیکس ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب، قطر، عمان، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں نے سوڈاز پر 50 فیصد اور انرجی ڈرنکس پر 100 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کی ہے۔
یہاں تک کہ ہندوستان میں مشروبات کی صنعت پر 40 فیصد ٹیکس عائد ہے۔ مالدیپ نے مشروبات کے ہر لیٹر پر $2.25 لیٹر لیوی عائد کی ہے۔ دنیا بھر کے 100 سے زیادہ ممالک اور ریاستیں پہلے ہی چینی والے مشروبات پر زیادہ ٹیکس عائد کر چکی ہیں تاکہ صحت عامہ پر پڑنے والے نتائج کی وجہ سے ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ فنانس بل 2024-25 میں الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور بیوریج مصنوعات پر ٹیکس بڑھا دیں۔
دیگر مقررین نے بھی پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ کاروباری مفادات پر صحت عامہ کو ترجیح دیں اور صحت عامہ کے مفاد کے لیے فنانس بل 2024-25 میں عوامی صحت کو ترجیع دیتے ہوئے الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور بیوریج مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ کریں۔
ٓآخر میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آنے والے بجٹ میں بیماریوں کا باعث بننے والے میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں میں اضافہ کرے تاکہ بیماریوں میں کمی سے حکومت کے صحت عامہ پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے۔