انسان کا انسان کے اوپر سب سے بڑا ظلم اس کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کرنا ہے۔ قدرت نے سب انسانوں کو برابر کی حیثیت میں پیدا کیا ہے۔ کئی بنیادی پیمانے ایسے ہیں کہ جن کے تناظر میں انسان مکمل طور پر یکساں حالت میں موجود ہیں۔ وقت میں ہم سب برابر ہیں، بنیادی جسامت میں برابر ہیں، جذبات و احساسات کے جوہر میں برابر ہیں، حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ڈھانچے کا فرق تو ہے پر روح اور حقیقت کا کوئی خاص فرق نہیں۔ تمام انسانی حقوق کی ضمانت آزادی ہے اور تمام تر انسانی حق تلفیوں کا سب سے بڑا سبب آزادی سے محرومی ہے۔
کسی کو بھی، کسی بھی وجہ سے، اپنی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ظلم اور فساد کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ کوئی کسی بھی قوم یا فرد کے سب سے بڑے فطری حق یعنی آزادی کو سلب کر لیں۔ قدرت نے انسانی فطرت کو جس طرح ڈیزائن کیا ہے اس میں یہ حقیقت موجود ہے کہ وہ سب کچھ تو برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنی آزادی کو ختم کرنا ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ جو بھی اس کی آزادی کو سلب کرتا ہے وہ دوسرے ہی لمحے مزاحمت کے دائرے میں قدم رکھتا ہے اور تب تک اپنی مزاحمت جاری رکھتا ہے جب تک اپنی سلب کی ہوئی آزادی کو دوبارا پا نہ لیں۔
دنیا میں، انسانی آزادیوں کو سلب کرنے اور پھر ردعمل میں اٹھنے والی مزاحمت کے نتیجے میں پیدا والے مسائل اور تنازعات میں سے ایک نمایاں مسئلہ، مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ اس مسئلے نے جنوبی ایشیا کے امن، سکون، خوشحالی اور استحکام کو کئی عشروں سے سخت متاثر کیا ہے۔ جو وسائل، مواقع اور امکانات عوام کے فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لیے صرف ہونے چاہئیں تھیں وہ باہمی کشمکش اور اویزشوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ یہ خطے کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ جہاں ایک دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ آئیے اس مسئلے پر چند بنیادی پہلوؤں پر مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کا طویل عرصے سے جاری ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے خطے کا مجموعی سیاسی، معاشی اور ثقافتی ماحول کو سخت کشیدہ رکھا ہوا ہے۔ یہی مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلسل کشیدگی کا اہم ترین سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو قریبی پڑوسی ممالک میں تجارت بند ہے، سفارت کاری کمزور ہے، تعلیمی اور ثقافتی ورثے کا تبادلہ ممنوع ہے اور باہمی اشتراک اور تعاون کے راستے مسدود ہیں۔ اس کے علاؤہ مسئلہ کشمیر تین جنگوں کا سبب بنا ہے جبکہ مزید کے خطرات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر متعدد تاریخی، سیاسی اور مذہبی عوامل پر مبنی ہے جبکہ اس کا حل دونوں ممالک سمیت پورے خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
1947 کو آزادی ملنے کے بعد جب برطانوی ہند تقسیم ہو رہا تھا تو متعدد چھوٹی بڑی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔ فطری طور پر مسلم اکثریتی علاقوں نے پاکستان میں شامل ہونا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے بھارت میں۔کشمیر واضح طور پر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی اور توقع کے عین مطابق اس نے پاکستان میں شامل ہونا تھا لیکن کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی امنگوں کے سراسر خلاف جاتے ہوئے پاکستان سے الحاق نہ کرنے کا ظالمانہ فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے اہل کشمیر سمیت پاکستان بھر کی عوام میں شدید تشویش پھیل گئی۔
اکتوبر 1947 میں پاکستان سے وابستہ قبائلی علاقوں میں منظم لشکر نے کشمیر پر حملہ کر دیا جبکہ عین موقع پر مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد مانگی اور بھارت کے ساتھ باقاعدہ الحاق کے معاہدے پر دستخط کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی فوجیں عالمی ضابطوں اور قوانین کو پس پشت ڈال کر کشمیر میں داخل ہوئیں اور ایسے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری رکھا جس کی کوئی مثال نہیں تب سے اب تک بھارت کا غاصبانہ قبضہ برقرار ہے لیکن جیسا کہ اوپر بتایا انسانی فطرت غاصبانہ قبضے کو کبھی بھی قبول نہیں کر رہی لہذا قبضہ اور مزاحمت ساتھ ساتھ جاری ہیں۔
1948 کی جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کا فیصلہ دیا جس میں کشمیری عوام کا یہ حق تسلیم کیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہو۔ تاہم، بھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی سے رائے شماری کبھی نہیں ہو سکی دوسری طرف پاکستان ہمیشہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی منظور کردہ حق خود ارادیت کے لیے بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان 1965 اور 1971 میں جنگیں ہوئیں جن کے وقوع میں مسئلہ کشمیر ہی اہم سبب تھا۔ 1971 کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ ہوا جس میں دونوں ممالک نے کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ مختلف مواقع پر بھارت اور پاکستان کے درمیان یوں تو مذاکرات کا اہتمام ہوتا رہا لیکن بھارت نے ہر بار مذاکرات کو بے نتیجہ چھوڑ کر چلا گیا۔
1980 کی دہائی کے آخر میں کشمیریوں نے تنگ آ کر بھارت کے خلاف عوامی سطح پر مسلح جد و جہد کا آغاز کیا۔ تنازعے کے ایک اہم فریق ہونے کے سبب کشمیریوں کی جد و جہد کو پاکستان کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد حاصل رہی۔ کشمیریوں کی جد و جہد سے حواس باختہ ہو کر بھارت نے ریاستی تشدد کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کشمیریوں کی جد و جہد آزادی کو دبانے میں وہ مسلسل ناکام رہا ہے۔ جلد یا بدیر ایک نہ ایک دن بھارت کا اہل کشمیر کی جد و جہد کے سامنے سر جھکے گا۔ گزشتہ کئی برسوں بھارت منظم انداز میں ہندؤں کو لا کر کشمیر کے مختلف علاقوں میں آباد کر رہا ہے۔ یہ کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے کے لیے ایک سفاکانہ پالیسی ہے جس پر بھارت پوری ڈھٹائی سے عمل پیرا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی وجوہات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ کشمیر میں واضح طور پر مسلم اکثریت ہونے کے باوجود جانب دارانہ اور غیر منصفانہ بنیادوں پر بھارت کے ساتھ الحاق، مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم سبب ہے۔ ایک قوم کے مسلمہ بنیادی حق سے اس کی محرومی کو پاکستان بجا طور ناجائز قرار دیتا ہے۔ پاکستان کے اس اصولی موقف کی دنیا بھر میں بہت سارے ممالک حمایت کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ کو چھوڑ کر، پاکستان میں بہنے والے باقی دریاؤں کا منبع کشمیر ہے۔ اس کے علاؤہ دفاعی لحاظ سے بھی کشمیر انتہائی اہم خطہ ہے۔ کشمیری عوام کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ اپنی مذہبی، سماجی، اخلاقی اور ثقافتی شناخت کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے پر اصرار کر رہی ہے۔ اہل کشمیر بجا طور بھارت کے ساتھ الحاق کو اپنی شناخت کے خلاف سمجھتے ہیں۔
خطے کے دیرپا امن، استحکام اور خوشحالی کے سبب بھارت کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فیصلوں کے عین مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنا مستقبل طے کرنے کا حق دے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی مذکورہ مسئلہ بڑھے گا، پھیلے گا اور خود بھارت کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ سات لاکھ مسلح فوج رکھنے کی صورت میں، ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کی بھاری قیمت بھارت آدا کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ بھارت یہ قیمت مزید چکانے سے عاجز آ جائے گا۔ مناسب طرزِ عمل یہ ہے کہ بھارت مزید ہٹ دھرمی چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرے۔ تاریخی شملہ معاہدہ کے دوران دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔ چین، روس اور امریکہ سمیت پوری بین الاقوامی برادری سے یہ توقع بے جا نہیں کہ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مجبور کرے۔ اگر چہ ایک بڑے اور درینہ مسئلے کی موجودگی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی تعاون بڑھانے کا عمل خاصا مشکل ہے لیکن مذاکرات کے لیے ذہنی اور نفسیاتی آمادگی کے تحت یہ مفید اور مطلوب بھی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مسئلہ کشمیر ہمارے خطے کا ایک اہم پیچیدہ، دیرینہ اور حساس مسئلہ ہے جس کا حل پورے خطے کے پائدار امن، استحکام اور خوشحالی کے سبب بے حد ضروری ہے لیکن اس کے لیے ہمہ طرفہ خلوص، بصیرت اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے تاکہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے عین مطابق حل ہو۔ اس کے لیے تمام فریقوں کے درمیان گہرا اعتماد، نتیجہ خیز مذاکرات اور سب سے بڑھ کر کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام ضروری ہے۔ یاد رہے مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں۔