پاکستان نیشنل مومنٹ کے مطالبہ حصول پاکستان کے نتیجہ میں تقسیم ہند کا انقلاب ایا جس کی وجہ سے اج ہم علیحدہ آزاد ملک پاکستان میں موجود ھئں چوہدری رحمت علی کا نعرہ اسلامی انقلاب تھا
ہوگا اک دن بارگاہ حق میں باریاب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
اللہ کے ہاں فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں اگر دینی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ذریعے سے اسلامی انقلاب انا ہوتا تو اب تک ا چکا ہوتا سب جماعتیں بڑے خلوص سے بڑی محنت اور جذبے سے کوشش کر رھی ھیں
مگر عوامی طاقت ساتھ کھڑی نہ ہو سکی
میں تو برصغیر پاک و ہند میں چوہدری رحمت علی کی تحریک پاکستان نیشنل موومنٹ کو انقلابی جماعت سمجھتا ہوں جس کے قائد نے 1915 میں برصغیر کی مسلم قوم کو اسلامی انقلاب کی طرف بلایا انھوں نے برصغیر میں 1915 میں بزم شبلی کے اجلاس میں سوئی ہوئی مسلم قوم کو اسلامی انقلاب کے لیے اواز دی اور کہا کہ مسلم قوم الگ ہے اور ہندو قوم الگ ہے انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی کے ساتھ یہی نعرہ مسلمانوں کے دل میں اتر گیا
ہاں اس وقت ہندو ظلم و ستم جبر و بربریت موجود تھی اس کی وجہ سے لوگ جیسے تیسے بھی ایمانی کیفیت میں تھے پاکستان کے مطالبے کے ساتھ کھڑے ہو گئے یہ تحریک اگر انقلاب کی دعویدار نہ ھوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اتنا بڑا انقلاب اتنی بڑی تبدیلی اتنی بڑی انسانی ہجرت لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہندوستان سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں اگئے اور تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا ہو گیا جس میں لوگوں نے ایک خطے سے دوسرے خطے میں ہجرت کی
ہم پاکستانی لوگوں نے سمجھا کہ بس پاکستان بن گیا تو اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں
اج بھی ہم اگر پاکستان نیشنل موومنٹ کی تحریک کے اصولوں پر ہی اس ملک کو اگے بڑھانے کے لیے کھڑے ھو جائیں اور اسلامی انقلاب کی دعوت دے دیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب اس ملک کے حالات بھتر ھو جائیں گے اور پوری قوم ایک صف میں کھڑی ہو جائے گی
اس کیلئے اسلام کی حقیقیت سمجھنا ہوگا اور ایمان کی حقیقیت سے اپنے دلوں کو منور کرنا ہوگا
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی بنیاد پر اپس میں اتحاد و اتفاق سے اس ملک کو مستحکم کرنا ھو گا
حصول پاکستان کی جدوجہد کا پلیٹ فارم ہمارے پاس موجود ہونے کے باوجود ہم نے ملک پاکستان کے اندر کبھی بھی اس طرح سے انقلابی تحریک چلانے کا سوچا ھی نہیں جس طرح ہندوستان کے اندر سوئی ہوئی مسلم قوم کو جگایا گیا اور مسلم قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور انقلاب برپا ہو گیا پاکستان حاصل کر لیا گیا
تو اب اگر ملک پاکستان کا استحکام درکار ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا
بقول
چوہدری رحمت علی
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا خود خیال نہ ہو
حصول پاکستان کی تحریک کے وقت اس وقت زبانی کلامی اسلام یا دعوی ایمان تھا وہ کام کر گیا اور اسلام کا جو بھی لبادہ ہمارے پاس تھا وہ ہندو جبر ظلم کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے اتحاد کا باعث بنا اور لوگ اپنا علیحدہ ملک حاصل کرنے کی جدوجہد میں شامل ہو گئے
مگر اب اس ملک کے استحکام کے لیے اگر اگے بڑھنا ہے تو یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم اب حقیقی اور شعوری ایمان والی طاقت کے ذریعے اگے بڑھیں گے وہ کیسے ائے گی وہ تب ہی ائے گی جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے قران مجید کو ضابطہ حیات اور صورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں اپنائیں گے
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو اپنی زندگی کے ہر شعبہ پر نافذ کریں گے پہلے اپنی ذات پر پھر اپنے گھر پر پھر اپنے ماحول پر پھر معاشرے پر اور پھر ملک پر
لوگوں کی تربیت کی جائے گی اور تربیت کے ذریعے سے عوامی پریشر ہی اخر کار انقلاب کے لیے کارگر ثابت ہوتا ہے
مگر ہماری ساری جماعتیں کسی اور طریقے کے ذریعے سے انقلاب لانا چاہتی ھیں کوئی سیاست کے ذریعے لانا چاہتا ہے کوئی کسی اور ذریعے سے لانا چاہتا ہے بہرحال یہ ملک بھی ہمارا ہے اور جماعتیں بھی ہماری ہیں ہمیں اس کی بہتری کے لیے جو بھی لائحہ عمل ہے اس کے ذریعے سے اگے بڑھنا ہوگا ہم سب کے ساتھ ہیں جو جس درجے میں بھی اس کوشش میں مصروف عمل ہیں ان کے کام قابل تحسین ہے اور ان کے اس عمل کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا کہ بوزنا ہوں میں
ہنس کر کہنے لگے میرے ایک دوست
ہمت ہر کس بقدر اوست
جس شخص میں جس درجے کی ہمت یا سوچ ہے وہ اتنی ہی کوشش کرتا ہے باقی ہماری مذھبی جماعتوں نے تو ہمیں مسالک میں الجھا کر رکھ دیا ھے ہر جماعت اپنے مسلک اور فرقے سے باہر نکل کر انقلابی جدوجہد کے لیے تیار ہی نہیں یہ سارے حالات اپ کے سامنے ھیں
اڑائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری
(یہ بات تو یقینی ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتی تمام اقوام میں سے خصوصا ہم جنہوں نے حقیقتا سب کچھ گنوا دیا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں کر سکے جنہوں نے صرف پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے کروڑوں مسلمانوں کی ازادی اور انہیں ایک لڑی میں پرو دینے کا علم بلند کیا ہے لیکن براعظم دینیا اور اس کے ماتحت علاقوں کے ہندو اکثریتی والے علاقوں میں بسنے وال کروڑوں مسلمانوں کے لیے تو اتنا بھی نہیں کر سکے اور اخری بات یہ کہ ہم تو وہ ہیں جو اپنے ہمسایوں کی ازادی کے لیے لڑنے کا بھی تہیہ کیے ہوئے ہیں لیکن ابھی خود ہی پاکیشیا کے تمام ممالک میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں
ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ہماری ملت اور اس کے مشن کے لیے یہ نئی دنیا یعنی موجودہ انقلاب کا نتیجہ اج تک انے والے تمام چیلنجوں سے بڑا چیلنج ہوگا، ایسا چیلنج جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نئی دنیا میں ہماری کیا پوزیشن ہوگی اس پوزیشن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ہم کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں دوسرے لفظوں میں کیا ہم اسلام کے تحت ایک متحدہ ملت بننا چاہتے ہیں یا ہندوستانیت کے تحت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا ہجوم
اس کے علاوہ کیا ہم نئے غیر ہندوستانی ممالک پاکستان، باگستان اور عثمانستان کی یک جان اقوام بن کر رہنا چاہتے ہیں یا دینیا کے پرانے ہندوستانی علاقوں میں غیر یک جان گروہ بن کر ؟؟
اخری بات یہ کہ کیا ہم دینیہ اور سری لنکہ کے ہندو اکثریت علاقے میں رہنے والے اپن کروڑوں مسلمانوں کی قومی ازادی کو انہیں پاکیشیا کے سات ممالک میں جوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام بخشنا چاہتے ہیں یا انہیں
"”اقلیتی فرقے "”کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلامی میں چھوڑ دینا چاہتے ہیں جو ان کے کے اس وقت صرف دینیا میں کم از کم 15 صوبوں اور 500 جاگیروں میں منتشر ہونے کی وجہ سے ایک لازمی امر ہے
یہ وہ نتائج ہیں جو اس مذکورہ بالا دل کو ٹٹولنے والے سوال سے سامنے اتے ہیں جو لازمی طور پر ہمارے لوگوں کی دلچسپی اور ہمارے سیاست دانوں کی توجہ مانگتے ہیں چونکہ اس سوال کے بارے میں ہمارے جواب پر پاک ایشیا میں موجود نہ صرف اسلام کے ایک چوتھائی حصے کے مستقبل کا انصار ہے بلکہ وہاں رہنے والی ایک چوتھائی انسانیت کا بھی اسی پر انحصار ہے)
ماخوذ”” چودھری رحمت علی کا مکمل کام "”
مصنف کےـ کے عزیز
مندرجہ بالا تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری سیاسی مذہبی جماعتیں کب تک صرف اپنے اپ کو اپنے علاقائی حلقوں تک محدود رکھیں گے اور ان کے ذہن میں کب ائے گا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دنیا کی امامت کے لیے بھیجے گیا ھے مسلم قومیت کا تصور جب تک ہماری سیاسی اور مذہبی اور قومی جماعتوں کے اندر نہیں ائے گا اس وقت تک یہ کون یکجا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی پاکستان کے اندر استحکام ا سکے گا
اللہ اللہ کرے کہ کوئی مسلمان بطور مجاہد اس کام کو لے کر کھڑا ہو جائے اور ساری قوم اس کی اواز پر لبیک کہے اور قوم صرف مسلم قومیت کی بنیاد پر ہی لبیک کہے گی اور انشاءاللہ وہ دن دور نہیں کہ جب یہ کام ہمیں کرنا ہوگا اور اس کے بغیر ہمارا چارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بغیر ہمارا ملک پاکستان استحکام کی طرف جا سکتا ہے اللہ پاک ہمارے ملک پاکستان کو مضبوط اور مستحکم رکھے
بقول چودھری رحمت علی رح
سیاست کے نقطہ نظر سے بھی مذہب اسلام ہمارے لیے عظیم ترین قوت رابطہ ہے اگر ہم مذہب کو اپنی قومی زندگی میں اس کے اعلی مقام تک بلند نہیں کریں گے تو دوسری چیزوں کے علاوہ یہ انداز پاکستان کے وجود اور ارتقاء کے لیے خطرناک ثابت ہوگا یہ چیز دوبارہ صوبائیت کو زندہ کر کے ہمیں پنجابیوں پٹھانوں کشمیریوں، سندھیوں اور بلوچیوں کی صورت میں منتشر کر دے گی لہذا اسلام ہی ہمارے اتحاد اور بقا کی ضمانت ہے
پاکستان نیشنل مومنٹ
امین
شکریہ