تحریر : عروج امجد
جیسے عورت ہونا کوئی حقیر بات یا جرم نہیں ایسے ہی عورتوں کا سیاست میں شامل ہونا ملکی و سیاسی معاملات میں حصہ لینا بھی قابل نفرت نہیں۔ پدرسری نظام جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہی ایک کڑی ہے اس نے جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے باعث عزت زندگی گزارنا ناممکن بنا دیا وہیں خواتین کے تاریخی کردار کو نہ صرف مسخ کیا بلکہ انہیں مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے زچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
سرمایہ داری کی مختلف لہروں میں یا یوں کہیے کہ مختلف ادوار میں خواتین پہ ہونے والے جبر میں بھی اضافہ ہوتا گیا جو بعد میں مظلوم طبقے کی عورت تک محدود ہو گیا۔ اوائل میں عورتوں کو گھر تک محدود رکھنے اور معاشی نظام سے کاٹ دینے پھر وسائل کی تقسیم اور اس کی بنیاد پہ ہونے والے جنگوں میں بطور مال عورت کا لین دین اور پھر مختلف قومیتوں کی تشکیل کے بعد مذہبی بنیادی پرستی کو ابھار دے کر عورت پر ظلم و ستم کو مزید مضبوط اور پر تشدد بنا دیا گیا۔۔۔
پاکستان جیسی تیسری دنیا کے ممالک جن کا قیام ہی سرمایہ داری کو برقرار رکھنے کے تسلسل ہی کے طور پر ہوا اپنی بنیادوں میں پدرسری کو رچائے ہوئے تھا۔ وہ خطہ جہاں آمروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف بغاوت کرنے کے جرم کی پاداش میں کئی مزاحمت کاروں کو عبرت کا نشانہ بنا دیا گیا تھا۔ جہاں مذہبی بنیاد پرستی عورت کی حکمرانی تو دور اس کے وجود سے ہی انکاری تھی وہاں ایک دلیر، بہادر اور بے باک خاتون کا لیڈر بن کے ابھرنا اور اس وقت کے یزید ضیاء، اس کی سلگائی ہوئی ملائیت کو للکارنا اور ان کے خلاف بے مثل اور طویل جدوجہد یقینا قابل ستائش ہے۔ سابق وزیر اعظم کی بیٹی ہونے کے باوجود اس تمام دورانیہ میں بے نظیر نے سیاسی حریفوں سے کردار کشی کے علاوہ وقت کے ملاؤں کا مقابلہ کیا، قید و بند کی صہوبتیں ایک سیاسی کارکن کی طرح جرأت اور دلیری سے برداشت کیں۔
روٹی ،کپڑا اور مکان” کا جو نعرہ بلند کرتے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی حمایت حاصل کی اسے بے نظیر بھٹو نے "جمہوریت بہترین انتقام ہے” کی شکل میں برقرار رکھا اور آگے بڑھایا۔ جہاں ایک طرف ضیاء کے ظلم و ستم سے تنگ عوام کو ایک مرتبہ پھر بے باک قیادت نصیب ہوئی وہیں دوسری طرف عورت کی آزادی اور پھر سیاست میں شمولیت کا راستہ بھی استوار ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں جہاں طبقات سے جڑا سوال پھر اجاگر ہوا وہاں معاشی و سیاسی ظلم و جبر کے خلاف عوام کا انقلابی راہ کو اختیار کرنا پھر طبقاتی کشمکش کی غمازی کرتا ہے۔
عوامی امنگوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر مصالحت کی پالیسی کو ترجیح دی گئی۔ ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو پھر پسپائی اور محرومی کی اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ لیکن اس سب کے برعکس بے نظیر بھٹو کی زندگی، مذہبی بنیاد پرستی کر رد کرنے اور عوام کو ایک نظریہ کے ساتھ جوڑتے ہوئے انکی حمایت حاصل کرنے کا سفر ایک سیاسی کارکن اور خاص کر مزاحمت کے میدان میں قدم رکھنے والی خواتین کے لیے باعث فخر و استقامت ہے۔
27 دسمبر کا دن جسے پاکستان اور اس کے علاوہ بھی سوگوار سمجھا جاتا ہے۔ اور جسے "مشرق کی بیٹی” کے نام سے مشہور ایک عظیم خاتون کی شہادت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس دن جب ہم بے نظیر بھٹو کے دلیرانہ کردار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں تو ہمیں بلوچستان میں اپنے بیٹوں کی لاشیں اٹھاتی ماؤں کو بھی یاد رکھنا ہو گا جو اس ریاست کی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ہمیں سندھ میں مذہبی بنیاد پرستی کا نشانہ بننے والے ڈاکٹر شاہنواز کی بیٹی کے آنسو بھی نظر انداز نہیں کرنے چاہیے، ہمیں خیبر پختون خواہ میں مذہبی فرقہ واریت کی آگ میں جلتے بہنوں کے گھر بھی فراموش نہیں کرنے چاہیے اور نہ ہی کشمیر میں عوامی حقوق کی پاداش میں مزاحمت کار خواتین پہ ہونے والی آیف آئی آرز کو بھولنا چاہیے۔ وہ ریاستی دہشت گردی، ظلم، سیاسی پستی اور بے ہودگی جس کا سامنا تیس سال قبل بے نظیر نے کیا آج بھی ہمیں ریاست کے ہر پہلو میں نظر آتی ہے.
وہ منشور جس پہ عمل نہ کرنے اور عوامی مزاحمت و بغاوت کو مصالحت کی سمت موڑ دینے کی پاداش میں بے نظیر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، اسے آج کی پیپلز پارٹی فراموش کر چکی ہے۔ لیکن آج ایک نظریاتی کارکن اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ طبقات سے پاک سوشلسٹ سماج کے قیام کی جدوجہد ہی وہ اصل جدوجہد ہے جس کے گرد محنت کش طبقے کو جوڑتے ہوئے ایک فیصلہ کن لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔