نہ ہمیں الحاق پاکستان کی بات کرنا چاھیے اور نہ ہی ہمیں خود مختار کشمیر کے موضوع پہ اپنا بیانیہ دینا چاھیے۔ہمیں بس حق خود ارادیت کی بات کرنا چاھیے۔ہمیں کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کی بات کرنا چاھیے۔ہمیں کشمیریوں کی نسل کشی کی بات کرنا چاھیے ہمیں کشمیریوں کی آزادی کی بات کرنا چاھیے۔ہمیں کشمیر پر بھارتی افواج کے ناجائز قبضے کی بات کرنا چاھیے،ان کے ظلم و ستم کی بات کرنا چاھیے
غیر کشمیریوں کی کشمیر میں آباد کاری کی بات کرنا چاھیے
کشمیر آزاد ہوگا تو جو ان کا فیصلہ ہوگا وہ ہمارا فیصلہ ہوگا۔وہ خود مختار رہنا چاھیں گے تو ہمارے بھائی ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاھیے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاھیں گے تو ہمیں ان کو سر آنکھوں پہ بٹھانا چاھیے۔جو وہ فیصلہ کریں گے وہ ہمارا فیصلہ ہوگا اور ہونا چاھیے۔حریت کے پلیٹ فارم پہ وہ متحد ہوں تو بسم اللہ۔کوئی اور پلیٹ فارم ہو جس پہ سب کشمیری متفق ہوں تو بسم اللہ۔
یعنی مسلہ کشمیر کے مین سٹیک ہولڈرز کشمیری ہیں۔جو ان کی مرضی وہ ہماری مرضی ہونا چاھیے۔
یوم استحصال کشمیر کیوں منایا جاتا ہے؟؟
کیا ہم جانتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
ہم نے کئی دن کشمیریوں کے ساتھ منسوب کررکھے ہیں لیکن مسلہ کشمیر اتنا ہی سنگین ہوتا چلا جارھا ہے۔اس کی وجوہات ہیں۔کبھی ہم فرینڈرز آف کشمیر بناتے ہیں کبھی ہمیں پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیرپرسن مشعال ملک نظر آجاتی ہیں۔
کبھی ہم حریت کانفرنس کی بات کرتے ہیں
کبھی حریت کا کوئی ایک دھڑا اچھا لگنے لگتا ہے۔یہ سب عجیب باتیں ہیں۔مشعال ملک ہماری بہن ہے اور انتہائی اچھے انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑرھی ہے لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ مشعال ملک کا کشمیر سے کیا تعلق ہے؟؟؟
وہی جو رینا رائے اور ثانیہ مرزا کا پاکستان سے تھا۔
عجیب باتیں کرتے ہیں ہم ۔
یاسین ملک کے نظرئیے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس کا نام لے کر کشمیر کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ہم یکسو کیوں نہیں ہیں۔
ہم شبیر شاہ کا نام کیوں نہیں لیتے۔لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ وہ آج کل کہاں ہے اور اس کس حال میں ہے۔میر واعظ بچہ تھا تو ہماری سکرینوں پہ نظر آتا تھا اب میچور ہوا ہے تو ہماری سکرین سے غائب ہے۔یہی کچھ ہم سید علی گیلانی کے ساتھ کرتے رھے۔۔۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم کرکیا رھے ہیں ۔
بھارت کا ظلم جبر ایک طرف اور ہماری غیر متزلزل پالیسیاں ایک طرف۔
بتائیں عبدالغنی بھٹ کیوں خاموش ہوگیا؟؟؟کدھر گئے وہ لوگ جو کھل کر کشمیر کا مقدمہ لڑتے تھے۔یقین جانیں اب تو غلام محمد صفی صاحب کی آواز بھی گھٹی گھٹی سی لگتی ہے۔کوئی بھی کھل کے بول ہی نہیں رھا،کشمیر کا مقدمہ لڑ ہی نہیں رھا۔کبھی آزادکشمیر کی قیادت بہت دبنگ انداز میں بات کرتی تھی۔
اب ہم راجہ فاروق حیدر کے ہاتھ میں سلگتا سگریٹ دیکھ کہ ہی انجوائے کرتے ہیں۔وہ لڑسکتے ہیں کشمیر کا مقدمہ۔کیوں نہیں بولتے وہ کہ یوم استحصال کشمیر منانے کا حق خود کشمیریوں کا ہے۔جس کا استحصال ہورھا ہے اسے پتہ ہے کہ اس کا استحصال ہورھا ہے اور کون کررھا ہے اور کیسے کررھا ہے ان کااستحصال۔لطیف اکبر ،چوہدری یاسین کیوں نہیں بولتے۔بھمبھر کا ہمارا پڑوسی انوار الحق کیوں نہیں بولتا،بیرسٹر سلطان اور عبدالرشید ترابی کیوں نہیں بولتے ،سردار عتیق اور عبد القیوم نیازی کیوں نہیں بولتے۔۔۔
!!!!!!
جو بولتے تھے وہ نہیں رھے۔۔۔یہ بات طے ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کامیاب ہوگی ۔کشمیری کئی دھائیوں سے ظلم وجبر برداشت کررھے ہیں،ان کے پاوں نہیں لڑکھڑائے۔وہ کھڑے ہیں چٹان کی طرح۔
جہاں بہنیں بھائیوں کے جنازے اٹھائیں
وہاں بہادری کی اور کیا مثال ہوگی۔کشمیر آزاد ہوگا۔یہ قدرت کا فیصلہ ہے۔وہ ہمیشہ آزاد رھے اور اپنی آزادی کے لئے لڑتے رھے۔تاریخ گواہ ہے یہ کوئی زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔ان کی تیسری چوتھی نسل اب لڑرھی ہے۔وہ مستقل مزاجی سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کی محنت اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔کشمیر آزاد ہوگا۔اور جب کشمیر آزاد ہوگا تو پھر کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔یہ ان کا حق بھی ہے اور زمانے کا دستور بھی۔
اس لئے ہمیں اس بحث سے بھی نکل آنا چاھیے کہ کشمیر بنے گا پاکستان یا کشمیر بنے گا خود مختار ۔یہ ہمارا کام ہی نہیں کہ اس پہ بات کریں ۔ویسے بھی یہ وقت سے بہت پہلے کی بات ہے۔فلحال تو ان کا مقدمہ لڑنا چاھیے۔اور کشمیریوں کی سب سے زیادہ توجہ کا مرکز پاکستان ہے،پاکستانی عوام ہیں۔کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رھے ہیں اور یہ امید کررھے ہیں کہ پاکستان ان کا مقدمہ ہر جگہ لڑے گا۔یقیناًپاکستان ان کا مقدمہ لڑرھا ہے اور مزید بہتر انداز میں لڑنا بھی چاہتا ہے اور لڑنا بھی چاہیے۔ لیکن اگر یہ مقدمہ ہم نے دل سے لڑنا ہے اور اس میں کامیابی بھی چاھتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں فرنٹ پہ کشمیری قیادت کو رکھنا ہوگا۔یوم استحصال کشمیر ہو یا یوم یکجہتی کشمیر کشمیری قیادت کو لیڈ کرنا چاھیے۔ہم ان کے وکیل ہیں۔ہمیں ان کا ساتھ دینا چاھیے۔ان پہ ٹرسٹ کرنا چاھیے۔
آپ دیکھنا کشمیر کی تحریک کس طرح پروان چڑھتی ہے۔
جب پار کا کشمیری اقبال کا شعر پڑھتا ہے
تو وہ
جب اپنے ایکسنٹ میں کہتا ہے کہ
بے کھتر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔۔۔تو وہ کئی دھائیوں بعد بھی دلوں میں رہتا ہے۔
کالج کے دنوں میں پروفیسر اشرف صراف نے پڑھا اس وقت ہم ہنسے تھے لیکن
آج تک کسی کے منہ سے یہ شعر سن کے مزہ نہیں آیا
جتنا ان کے منہ سے سن کے آیا تھا۔۔۔کیونکہ وہ بے کھتر(بے خطر) کود کے یہ سب دیکھ رھے تھے۔سید یوسف نسیم بھی دھیمے انداز میں لگے رہتے ہیں لیکن اب سب ہی ڈھیلے پڑگئے ہیں
شاید
اب
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
بہرحال میری ہاتھ جوڑ کے التجاء ہے کہ اس ساری میچور قیادت کو متحرک کیا جائے۔ کشمیریوں کو فرنٹ پہ لائیں ان کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں آپ دیکھئے گا کہ مسلہ کشمیر کس طرح عالمی سطح پہ اجاگر ہوتا ہے۔
اس سے نہ صرف آپ کشمیریوں کی تحریک کو زندہ کریں گے بلکہ اس طرح آپ ان کے دل بھی جیتیں گے۔
اور کسی کا دل جیت لینا بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے اگر ہم سمجھیں تو۔۔۔۔