ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نئی دوڑ، خلا میں جدید نظام کے لیے بڑا قدم
ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نئی دوڑ، خلا میں جدید نظام کے لیے بڑا قدم
دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اب زمین سے آگے بڑھ کر خلا میں ڈیٹا مراکز قائم کرنے کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں۔ ان مراکز کا مقصد یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلیں اور زمین کے قدرتی وسائل پر دباؤ کم کریں۔
ماس ٹرانزٹ سسٹم کا ٹی کیش کارڈ مہنگا ہوگیا
امریکی کمپنی سٹار کلاؤڈ نے حال ہی میں ایک چھوٹا سی مصنوعی سیارچہ (سیٹلائٹ) خلا میں بھیجا ہے، جس میں جدید کمپیوٹر چپ نصب ہے۔ کمپنی کے سربراہ فلپ جانسٹن کے مطابق یہ مستقبل میں خلا میں مکمل ڈیٹا مراکز قائم کرنے کی سمت پہلا عملی قدم ہے۔ ان کے مطابق خلا میں شمسی توانائی مسلسل دستیاب ہے اور درجہ حرارت کمپیوٹنگ کے لیے سازگار ہے، جو زمین پر مراکز بنانے کے مقابلے میں مؤثر اور ماحول دوست ثابت ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دیگر بڑی ٹیکنالوجی اور خلائی کمپنیوں نے بھی اس منصوبے میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کچھ کمپنیاں 2027 تک تجرباتی سیٹلائٹس خلا میں بھیجیں گی تاکہ شمسی توانائی سے چلنے والے ڈیٹا نیٹ ورک کا تجربہ کیا جا سکے۔ مستقبل میں یہ مراکز لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین سے جڑ سکیں گے، جس سے ڈیٹا کی رفتار میں اضافہ ممکن ہوگا۔
تاہم اس منصوبے کے کئی چیلنجز ہیں، جن میں تابکاری، شدید درجہ حرارت، خلائی ملبہ اور بلند لاگت شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق فی الحال یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہے، لیکن راکٹ ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ توقع کی جا رہی ہے کہ 2030 کی دہائی کے وسط تک خلا میں قائم ڈیٹا مراکز زمین کے مراکز کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور کم لاگت ہوں گے۔
یہ پیش رفت مستقبل کے ڈیٹا انفراسٹرکچر کو زمین سے باہر منتقل کرنے کی سمت میں ایک اہم سنگِ میل ہے اور آنے والے دور کی ٹیکنالوجی اور معیشت کی نئی راہوں کی نمائندگی کرتی ہے۔