رحیم یار خان میںڈاکوئوں کی فائرنگ سے لگ بھگ درجن پولیس اہلکار شہید ہوگئے جبکہ اتنے ہی زخمی ہوئے۔
اس سانحہ سے جہاں شہید اہلکاروں کے خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی وہیں ہر پاکستانی بھی دکھی ہے۔ سپاہی اور رینکر پولیس افسران وہ طبقہ ہیں جو ناکافی سہولیات اور نامساعد حالات کے باوجود ہماری حفاظت میں مصروف عمل ہیں۔رحیم یار خان واقعہ پر ہردل افسردہ ہے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور ،ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ذولفقار حمید ،ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی وسیم سیال ،ایڈیشنل آئی جی سائوتھ پنجاب کامران خان ،آر پی او بہاولپور رائے بابر سعید اور ڈی پی او عمران ملک فوری طور پر جائے حادثہ پہنچے ،بعد ازاں زخمیوں کی عیادت کیلئے بھی گئے ۔سینئر افسران کا کوئیک رسپانس قابل تعریف ہے۔
پولیس سے توقعات تو بے تحاشہ ہیں لیکن کوئی بھی ان کو بنیادی وسائل دینے کی بات نہیں کرتا۔پولیس اہلکاروں سے زیادہ جدید اسلحہ تو ڈاکوئوں کے پاس ہوتا ہے۔حتیٰ کہ سپاہیوں کے حصے میں آنے والے راشن اورگاڑیوں کے پٹرول تک کے پیسے بڑے افسران خود کھاجاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی چور ڈاکو اور دہشت گرد پولیس سے ڈرتے تھے خاص طور پر پنجاب پولیس کی دہشت کا زمانہ معترف تھا۔
لیکن بدقسمتی سے جب سے پولیس کو سوشل میڈیا کی بیماری لگی ہے تب سے سپاہی سے لیکرتھانیدار، ایس پی ،ایس ایس پی ،ڈی آئی جی اور آئی جی تک سب شہرت کی دوڑ میں اپنی بنیادی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں۔جب سے پولیس نے بندوق چھوڑ کر کیمرہ پکڑا ہے گنگا الٹی بہہ رہی ہے ،جوبدنام زمانہ ٹک ٹاکر پولیس کے ملزمان ہوتے تھے وہی لونڈے لپاڑے مہمان خصوصی بن چکے ہیں۔پولیس کا کام ٹک ٹاک سٹار بننے کے بجائے کرائم کنٹرول کرنا ہے۔
پولیس والے جو پہلے مجرموں کا پیچھا کرتے تھے اب سوشل میڈیا کے لیے ویڈیو بنانے میں ہلکان ہورہے ہوتے ہیں۔کچھ ڈی پی او صاحبان دن بھر’’ چلبل پانڈے‘‘ بنے سوشل میڈیا ریکارڈنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔جب سے پولیس نے سوشل میڈیا پر ایکٹنگ اور اینکرنگ شروع کی ہے ،کرائم ریٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاچکا ہے ۔ سٹریٹ کرائم اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ کوئی محفوظ نہیں۔ پولیس افسران سے گزارش ہے کہ اگر شہداء کے خون کا بدلہ لینا ہے اور پولیس سمیت عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے تو خدارا شہرت کی بھوک کو ترک کرکے وہ کام کریں جس کا حلف اٹھایا ہے۔
کیمرے کی بجائے واپس بندوق اٹھا لیں ،جعلی ویڈیو شوٹنگ کی بجائے چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ اصل فائٹ کریں۔اگر کرائم کنٹرول ہوگا تو یقینا لوگ خود پولیس کی تعریف کریں گے لیکن اگر آپ جرائم کنٹرول کرنے کی بجائے سارا زور سوشل میڈیا پروجیکشن پر لگادیں گے تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اگر افسران اسی طرح سارے اصل کام چھوڑ کر سوشل میڈیا کے پیچھے ہلکان ہوتے رہیں گے تو امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔غیر ملکی سرمایہ کار ہر بار ملکی سکیورٹی کا جواز بنا کر سرمایہ کاری کا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔جہاں خود سکیورٹی اہلکار محفوظ نہ ہوں وہاں کون بیرونی سرمایہ کاری لائے گا ؟ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سمیت تمام وزراء اعلیٰ کو چاہئے پولیس بالخصوص اور دیگر محکموں میں بھی سوشل میڈیا پرافسران کی ذاتی پر وجیکشن پر پابندی لگائی جائے۔عوام کے پیسے سے افسران کی ذاتی پروجیکشن قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط اور قابل گرفت جرم ہے۔
حکومتی ارباب اختیار کو چاہئے کہ عوامی خدمت کی بجائے ذاتی پروجیکشن میں مصروف افسران کو فی الفور عہدوں سے فارغ کیا جائے اور انکے خلاف محکمانہ کاروائی کی جائے۔ کیا افسران کو ملک کی عزت ،سلامتی ،امن اور ترقی و فلاح وبہبود سے اپنی ذاتی پروجیکشن زیادہ عزیز ہے۔ کیا عوام ٹیکس اس لیے ادا کرتی ہے کہ اس ٹیکس کے پیسوں سے افسران کی ذاتی پروجیکشن کی جائے؟ پولیس اور دیگر اداروں کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے کہ آپ لوگ ایک مہینہ دن رات بھی اپنی تعریف کرنے کیلئے ’’اپنے منہ میاں مٹھو ‘‘بنتے رہو اس سے کہیں زیادہ اہمیت ایک صحافی کے قلم سے لکھی دولائنوں کی ہوتی ہے۔
اس لیے اپنی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے حقیقت میں عوامی خدمت کریں گے تو ناصرف میڈیا بلکہ ستم اور دکھوں کے مارے عوام بھی آپکی تعریف کریں گے ۔ ذاتی تشہیر کا عجیب سلسلہ چل نکلا ہے ہرسرکاری ڈیپارٹمنٹ نے اپنا تشہیری اور میڈیا ونگ بنایا ہوا ہے۔ شہرت کی بھوک اور لت ،بڑوں کے دیکھا دیکھی بچے بھی اسی راہ پر ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر اور اے ایس پی بھی اپنے پیجز چلارہے ہیں۔
سرکاری ملازم کو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے۔اس تنخواہ کے عوض سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ اپنا کام ذمہ داری اور ایمان داری سے کرے ، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ریاست پر کوئی احسان عظیم نہیں کرتا۔سرکاری افسران اگرتھوڑا ساکام بھی کرلیں تو یوں سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے بہت بڑا تیر مار لیا ہو۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو ان کی ملازمت کے فرائض میں شامل تھا۔جناب چیف جسٹس اس سے قبل کہ بیوروکریٹ شہرت کی لت میںپاگل ہوجائیں،قوم کے پیسے سے سرکاری افسران کی ذاتی تشہیر اور شخصیت پرستی کو فوری طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ اس غلط روایت سے سرکاری افسران سارا دن نت نئے اشتہارات بنانے اور دکھانے کے سوا کچھ نہ کرتے اور نہ سوچتے ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ 92نیوز)