پیغمبر رب العالمین سیدنا ایوب علیہ السلام

0

ڈاکٹر حافظ ذوالفقار علی
جد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام اولو العزم اور جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ ان کی اولاد میں کثیر انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ، جن کی تعداد ہزاروں میں ذکر کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جتنے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ آیا ہے، ان میں سے آٹھ کے سوا سب انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ سیدناایوب علیہ السلام بھی ان انبیاء کرام میں سے ہیں جو خلیل اﷲ علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔سیدنا ایوب علیہ السلام بے حد مال دار تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے ساتھ ساتھ تمام دنیاوی نعمتوں سے بھی نواز رکھا تھا۔ بہت عمدہ صحت کے علاوہ آپ کے پاس ہر قسم کے مویشی، غلام، خدام اور وسیع زرعی اراضی تھی جس میں قسم ہا قسم کے پھلوں کے باغات اور اناج کی فصلیں تھیں۔ ابنِ عساکر کے مطابق ’بثنہ‘ کا سارا علاقہ آپ کی ملکیت میں تھا۔ علاوہ ازیں آپ کے اہل وعیال اور خاندان کے افراد بھی کثیر تعداد میں تھے جو آپ کے دست وبازو کی طرح تھے۔
اس قدر خوش حالی دیکھنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی منشاء یہ ہوئی کہ آپ علیہ السلام کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈالا جائے اور اس پر آپ علیہ السلام کا صبر آنے والی نسلوں کے لیے راہنما مثال بن جائے۔ چناں چہ اس امتحان اور آزمائش کا وقت شروع ہوا، تمام نعمتیں اُٹھا لی گئیں، صحت مندی رخصت ہو گئی، جسم مبارک مختلف امراض اور تکالیف میں مبتلا ہو گیا۔ اس قدر سرتاپا مبتلائے مرض ہونے کے باوجود زبان پر کوئی کلمۂ شکایت نہیں ہے بلکہ شام وسحر اور روز وشب ذکر و فکر میں منہمک اور صبر و شکر کا مجسمہ بنے رہے۔ بیماری کی کیفیت میں جس قدر اضافہ ہوتا، صبر و شکر اور حمد وثناء میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا۔ مقامِ تسلیم ورضا کی یہ کیفیت کہ حمد و ثناء تو جاری ہے مگر یہ دعا اور التجا زبان پر نہیں لاتے کہ اس مرض کو دور کر کے صحت و عافیت لوٹا دے، بلکہ الحمد ﷲ علی کل حال کے پیکر بنے راضی برضا ہیں۔ اسی سے ’صبر ایوب‘ رہتی دنیا تک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا۔مرض کی شدت اور طوالت کی وجہ سے باقی نعمتیں اور اسباب و وسائل بھی جاتے رہے۔ ہر وقت خدمت میں رہنے والے ساتھ چھوڑ گئے۔ اہلِ خاندان اجنبی بن گئے، غلام بھاگ گئے،باغات اور زمینیں دوسروں کے زیرِ تصرف آگئیں،مویشی اور دیگر مال ومتاع ایک ایک کر کے ہاتھ سے نکل گئے۔ صرف ایک وفا شعار اور صابرہ شاکرہ زوجہ آپ کے ساتھ شریکِ حالات رہی اور خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ بھی بتدریج ضعیف ہو گئیں مگر خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ حتی کہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے غذا کے چند نوالے حاصل کرتیں اور لا کر آپ کو کھلاتیں۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی تو ایک دن عرض گزار ہوئیں کہ کاش آپ اپنے رب کے حضور دعا کرتے تو اﷲ تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرماتا۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ستر سال صحت و سلامتی اور تندرستی میں بسر کیے ہیں، اب کم از کم ستر سال تو صبر کر لوں۔ اس جواب سے وہ اﷲ تعالیٰ کی صابرہ بندی بھی مطمئن ہو گئیں اور برابر خدمت جاری رکھی۔
سیدنا ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلا کئے جانے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں، ابوالبرکات عبداﷲ بن احمد نسفی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’اﷲ تعالیٰ نے کسی خطا کی وجہ سے سیدنا ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا بلکہ آپ علیہ السلام کے درجات مزید بلند کرنے کے لئے آزمائش میں مبتلا کیا ۔‘‘بہرحال جب عرصہء آزمائش مکمل ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کے دل میں دعائیہ کلمات القاء کیے۔ سورۃ الانبیاء کی آیت 83 اور 84 کا مفہوم یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف نے گھیر رکھا ہے اور تو ہی سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور تکلیف کو دور کردیا اور اپنی طرف سے رحمت فرما کر اہل وعیال بھی لوٹا دیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کیے۔ مفسرین نے ان آیات کے تحت ذکر کیا ہے کہ صبر کے صلے میں اﷲ تعالیٰ نے مال اور اولاد سمیت ہر نعمت پہلے سے دگنی کر کے عطا فرما دی۔
سورۃ ص کی آیات 41 و مابعد کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ زمیں پر اپنا پاؤں ماریے۔ جب آپ نے پاؤں مارا تو وہاں سے ٹھنڈے میٹھے اور صحت افزا پانی کا چشمہ ابل پڑا۔ وحیِ الٰہی کے مطابق آپ نے اس سے غسل بھی کیا اور نوش بھی فرمایا تو معجزانہ طور پر فوراً مرض و نقاہت کی تمام اندرونی اور بیرونی علامات و آثار ختم ہوگئے اور آپ بالکل تندرست و توانا ہو گئے۔ ابنِ جریر علیہ الرحمہ کے بیان کے مطابق یہاں ایک دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ جب آپ کی اہلیہ کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر واپس آئیں تو آپ کو پہچان نہ سکیں۔ پوچھا کہ آپ نے یہاں اﷲ کے نبی کو نہیں دیکھا جو تکلیف میں مبتلا تھے؟ بخدا بیماری سے قبل ان کی شکل وشباہت بالکل آپ جیسی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میں ہی ہوں۔ اہلیہ نے کہا کہ اے بندۂ خدا آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ آپ نے بارِ دیگر فرمایا کہ میں ہی ایوب ہوں۔ یہ چشمہ دیکھو اس سے اﷲ تعالیٰ نے مرض کے آثار دور کر کے مجھے صحت و سلامتی لوٹا دی ہے۔ تب ان کی خوشی بے انتہا تھی۔
قرآن مجید میں سیدنا ایوب علیہ السلام اور آپ کے صبر کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے انتہائی محبت بھرے انداز میں فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہمارے بندے ایوب کا ذکر بھی کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا۔ بیشک ہم نے انھیں صابر پایا۔ کیا ہی اچھا بندہ ہے، بیشک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا ہے۔ (ص:41-44) اس سے معلوم ہوا کہ مصائب میں صبر اختیار کرنا اور رضائے الٰہی پر راضی رہنا اﷲ تعالیٰ کے ہاں بے حد پسندیدہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صبرِ حقیقی کی دولت سے نوازیاور ذکر انبیاء علیہم السلام کی برکات عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
( مصادر ومراجع: القرآن ، تفسیر روح المعانی ، تفسیر مظہری ،قصص الانبیاء، سیرت الانبیاء )

Leave A Reply

Your email address will not be published.