:منصوبے کی پاکستان کے لیے اہمیت
سی پیک ایم ایل ون کے سابق انچارج بشارت وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت ایم ایل ون منصوبہ کئی سال پہلے طے پایا تھا، اس پر نواز شریف کے دور میں تیزی سے عمل ہوا اور موٹر وے تعمیر ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے میں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے منصوبے کا ابتدائی تخمینہ یعنی پی سی ون تیار کروایا تھا۔
بشارت وحید کے مطابق: ’ایم ایل ون منصوبہ اپ گریڈ ہونا تھا، لیکن یہ منصوبہ بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت میں سست روی کا شکار ہوا اور بعد میں اعظم سواتی نے اسے بند ہی کروا دیا، سٹاف بھی ہٹا دیا گیا اور دفاتر بھی بند کر دیے گئے۔‘
دنیا بھر میں ریلوے جدید نظام کے تحت چل رہا ہے کیونکہ یہ مال برداری کا سب سے سستا اور موثر ذریعہ ہوتا ہے۔ چین بھی سی پیک منصوبے کے تحت حویلیاں سے چین کو ریلوے کے ذریعے جوڑنا چاہتا تھا تاکہ مال برداری کے لیے ٹرین استعمال کی جائے۔
بقول بشارت وحید: ’یہ گیم چینجر پلان ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف ریلوے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا تھا بلکہ ملکی معیشت میں بھی اس سے نمایاں بہتری آنی تھی۔ اب جو مال گاڑیوں سے چار فیصد مال برداری ہوتی ہے وہ 14، 15 فیصد پر آسکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چھ سال تاخیر کے باعث چین کی دلچسپی اس وجہ سے کم ہوگئی کہ انہوں نے بذریعہ ٹرین دیگر ممالک تک رسائی متبادل ممالک سے بنا لی ہے۔ تاہم اب وزیر اعظم ریلوے حکام کو ساتھ دورہ چین پر لے جا رہے ہیں اور ان کی پہلی ترجیح ہوگی کہ یہ منصوبہ دوبارہ بحال ہو اور چین پاکستان کی مالی معاونت کرے۔‘
پاک چین کے اس منصوبے کے تحت پشاور سے کراچی تک ریلوے مین لائن (ایم ایل ون) بھی تعمیر ہوئی تھی۔
اس منصوبے پر کام سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شروع ہونا تھا مگر یہ منصوبہ سست روی کا شکار رہا۔سابق وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی اس پر کام جاری رکھنے کے لیے قرضوں کی منظوری یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔پلاننگ کمیشن کی جانب سے بھی اس پر کام کرنے کو ترجیح دی گئی مگر یہ منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔
پھر اعظم سواتی کو وزیر ریلوے بنایا گیا تو سی پیک ایم ایل ون کے سابق انچارج بشارت وحید کے بقول انہوں نے نہ صرف اس منصوبے کو ہی بند کر دیا بلکہ سٹاف کو بھی ہٹا دیا گیا۔گذشتہ چھ سال سے یہ منصوبہ شروع نہ ہونے کے باعث چین نے متبادل راستوں سے اپنا مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔
اس منصوبے کی لاگت بھی چھ ارب ڈالر سے بڑھ کر دس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، لہذا امکان ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف دورہ چین کے موقعے پر اس منصوبے کی بحالی کی درخواست کریں گے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس منصوبے کی بحالی اور پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کے لیے رضامند ہو گا یا نہیں؟
اس منصوبے پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے تو ریلوے جدید نظام پر ایک حد تک منتقل ہوسکے گا۔ ریلوے حکام کے مطابق ٹرین کی رفتار دیگر دنیا کے مقابلے میں کم ہی رہے گی کیونکہ سپیڈ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کرنے کے لیے پورا نظام تبدیل کرنا ہوگا۔