واشنگٹن: امریکہ نے کو چین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کا رویہ بڑھتی ہوئی فوجی جارحیت کا نمونہ ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کسی کو چوٹ پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ان غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ مداخلتوں کے ساتھ یہی تشویش لاحق ہے۔
جان کربی نے کہا کہ واشنگٹن چین کی اس بڑھتی ہوئی جارحیت سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے ہند بحرالکاہل میں امریکی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم کہیں نہیں جا رہے ہیں، ہم وہیں رہنے جا رہے ہیں جہاں ہماری حقیقی ضرورتیں موجود ہیں۔
ہم اپنے اتحادیوں اور شراکتوں کو مضبوط کرنا اور انہیں طاقتور بنانا جاری رکھیں گے۔جان کربی نے سعود ی عرب اور اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان پر دبے الفاظ میں ناراضگی کا اظہار کردیا اور کہا کہ ایک خود مختار ریاست کا یکطرفہ فیصلہ تھاہمیں اس حوالے سے کسی پیشگی اطلاع کا علم نہیں ہے اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہوگی۔دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا معاملہ واشنگٹن کے لیے انتہائی اہم ہے۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پرلانا امریکا کے قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔بلنکن نے امریکی اسرائیل تعلقات عامہ کمیٹی ( اے آئی پی اے سی) بتایا کہ ہمیں یقین ہے،دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کوآگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انٹونی بلنکن نے الریاض اور جدہ میں مذاکرات کے لیے روانگی سے چند گھنٹے قبل خطاب میں کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ معاہدہ ابراہیم کے لیے پرعزم ہے، یہ اقدام سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کو یہودی ریاست کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
لیکن اب تک الریاض نے اس میں کوئی زیادہ دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اس نے اسرائیل کی تجارتی پروازوں کو اپنی فضائی حدود سے گذرنے کی اجازت دی ہے اوراس کے اسرائیل کے ساتھ رابطے بھی ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر معمول پرلایا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا:’’لیکن ہم اس کام کے لیے پرعزم ہیں، جس میں سعودی اور خلیجی ممالک کے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے اس ہفتے جدہ اور الریاض کا میرا دورہ بھی شامل ہے‘‘۔تاہم انھوں نے مزید کہا کہ انضمام اور معمول کے تعلقات استوار کرنے کی کوششیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پیش رفت کا متبادل نہیں ہیں اور انھیں اس کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔