کل شام کی بات ہے ۔میری بیٹی مجھے موبائل پر حجاب ، سکارف اور عبایا کے مختلف ڈیزائن دکھانے لگی۔میں بڑے اشتیاق سے دیکھنے لگی
وہ کہنے لگی کہ جب وہ یونیورسٹی جائے گی تو یہ سارے اپنے لئے خرید کر پہنےگی۔ مناسب اور ساتر ڈیزائن کے عبایا اور سکارف بہت اچھے لگ رہے تھے۔وہ مجھے اسکارف اور عبایا پہنے خواتین دکھا رہی تھی اورمیں سوچنے لگی کہ یہ عبایا اور سکارف کہنے کو تو ایک مخصوص لباس ہے جو مسلمان خواتین اور مسلمان جوان بچیوں کے گھر سے باہر ڈریس کوڈ ہے مگر یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ حجاب ایک عظیم الشان ہستی کی طرف سے تحفہ ہے
جو اس کے وقار , پاکدامنی اور تحفظ کا ضامن ہے ۔جو اس کے حیا کو زینت سے آراستہ کرتاہے
حجاب دراصل ایک نظریے اور ایک نظام زندگی کا نام ہے۔وہ نظریہ کیا ہے وہ کونسا نظام زندگی ہے جو ایک مسلمان خاتون کو اتنا قیمتی سمجھتا ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے تو اپنے آپ کو ایک بڑے کپڑے میں لپیٹ کر نکلے ۔تصور کیجئے اسلام ایک عمارت ہے تو حجاب اس کی ارائش۔عورت اگر جسم ہے تو حجاب اس کی روح۔حیا اگر ایمان ہے تو حجاب اس کا یقین ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے زندگی کے ہر شعبے کے حوالے سے ایک پورا نظام دیتا ہے۔لہذا حجاب کپڑے کے ایک یا دو ٹکڑوں کا نام نہیں بلکہ ایک فلسفہ کا نام۔
اس کے پیچھے عفت و پاکدامنی کا پورا نظام ہے جو اگر معاشرے میں رواں ہو تو آج عورت کو آپنے وقار ،تقدس اور تحفظ کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہے اس سے چھٹکارا حاصل ہوگا ۔
رب العالمین نے مرد اور عورت کو جسمانی ،ذہنی،نفسیاتی حتی کہ جذبات کے لحاظ سے بھی مختلف بنایا ہے ۔مرد کو خاندان کی کفالت ،اس کے تحفظ اور تربیت کا ذمہ دار بنایا گیا ہے اور عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے ۔عورت اور مرد کے درمیان اللہ نے فطری کشش رکھ دی ہے۔
جو نہ صرف خاندان کی تنظیم اور بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کے استحکام اور مضبوطی کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔
خالق کائنات نے مرد اور عورت کے لیے مختلف دائرہ کار بنایا ۔دونوں کو آپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے خصوصاً خاندانی نظام جو معاشرے کی اکائی ہے کو ہر طرح کے منفی رحجانات سے تحفظ دینے کے لیے کچھ اصولوں کا پابند بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جسمانی طور پر کمزور بنایا ہے ۔اس کو خصوصی طور پر کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ تحفظ کے احساس کے ساتھ معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کو کہا کہ
ایک تو بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں۔اور گھر سے نکلنا پڑے تو اپنے جسم اور اپنی آرائش کو چھپا کر نکلے ۔اورکوئی ایسا زیور نہ پہن کر نکلے جو غیر مرد جس کو نامحرم بھی کہا جاتا ہے ،کو اپنی طرف متوجہ کریں ۔اور قرآن میں یہ ہدایات دینے کے بعد اللہ تعالٰی نے وجہ بتائی کہ وہ
پہچانی جائے اور ستائی نہ جائے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ گھر کی چار دیواری کو صرف چھت قرار نہیں دیتا بلکہ اس کو اتنا مقدس بنایا کہ اگر کوئی کسی گھر کی چار دیواری کے اندر جھانکنے کی کوشش کریں تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اہل خانہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کا کوئی قصاص نہیں ۔یہی نہیں بلکہ رشتہ داروں تک کو کہا کہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی اندر سے جواب نہ آئے تو برا مانے بغیر واپس ہوجانا۔
نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیز ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ہدایت کی کہ نامحرم کو گھور گھور نہ دیکھیں۔ بلکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اور غیر ضروری گفتگو نہ کریں۔آج پاکستانی معاشرے ہی کو لیں۔ عورت کو تحفظ ،اس کے وقار ، جان آبرو کے حوالے سے جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ اگر کوئی ہے تو وہ انہی آفاقی تعلیمات وہدایات پر عمل کا فقدان ہے ۔اس وقت پوری دنیا میں عورت کو سب سے زیادہ جن مسائل کا سامنا ہے اس میں اس کی جان وآبرو کے تحفظ کا مسئلہ سرفہرت ہے۔
انسانوں کے بنائے گئے قوانین نے عورت کے مسائل مزید گمبھیر کردئیے ہیں ۔رہی سہی کسر تحریک مساوات مردو زن نے پوری کردی ۔مساوی حقوق کے نام پر اس کو شمع خانہ کے بجائے شمع محفل بنادیا ۔اس کے تصور حیا کو کچل کر مارکیٹ میں بطور جنس پیش کیا اور اس کو ورغلایا کہ یہ تمھاری آذادی ہے ۔مغرب کی عورت سب سے زیادہ اس گمراہ کن نظریے سے متاثر ہوئی ۔وجہ یہی ٹھہری کہ مغرب کی عورت کو ان کے قدیم معاشروں میں جانوروں کی طرح رکھا جاتا ۔مگر ستم ظریفی تو یہ ہے اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام گھر کی اور مرد کے دل کی ملکہ کا تھا مگر ایک ایجینڈے کے تحت اس کو بھی کہا گیا کہ حجاب سمت سب حدود سے باہر نکل کر تم بھی بازاروں ،اور سینما گھروں کی زینت بن جاؤ اور اس کو آزادی اور مساوات کا نام دیا۔اور آج ہم لاکھ قوانین بنائے ،عورت کے تحفظ کے لیے جتنے مرضی ٹاسک فورس قائم کریں اس کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔اور وجہ بے حجابی کا وہ طوفان بدتمیزی ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر معاشرے میں مرد خصوصاً عورت اور نوجوان بچیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔جہاں وہ بغیر کسی خوف کے اپنے کام کرسکیں تو ان کو حجاب اور عفت و پاکدامنی کا ماحول دینا پڑے گا۔عورت کو سمجھانا پڑے گا کہ حجاب قید نہیں اس کا بنیادی حق ہے جس کو چھیننے کی اجازت کسی کونہیں دی جاسکتی ۔حجاب تو رب رحیم کی طرف سے عورت کا تحفہ ہے۔حجاب تو اس پیکج کا نام ہے جو خالق کائنات نے عورت کے وقار ،پاکدامنی،اور تقدیس کے لیے اس کو عطا کیا ہے جس کی پناہگاہ میں ہر عورت آسکتی ہے۔حکومت وقت کا بھی فرض ہے ۔عورت کے تحفظ ،وقار اور تقدس کیلئے الٹے سیدھے قوانین بنانے کے بجائے پہلے تو پیمرا کے قوانین کے تحت ایسے ڈرامے اور پروگراموں پر پابندی لگائے جو معاشرے میں ہیجان انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں۔اشتہارات میں عورت کو بطور جنس پیش کرنا بند کریں۔جوئے لینڈ اور برزخ جیسے حیاسوز ڈرامے بنانے پر لائسنس کینسل کردیں ۔غرض وہ تمام سرگرمیاں جن سے معاشرہ میں ہیجان پیدا ہوتا ہے جب تک قانون کی گرفت میں نہیں لائی جائے گی اور جب تک معاشرے کو خرافات سے پاک نہیں کیا جائے گا تب تک عورت کو تحفظ فراہم کرنا خام خیالی ہے ۔بحثیت والدین ہم گھروں میں ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے اور بچپن سے ہی بچیوں کو خاص طور پر ساتر اور باحجاب لباس کا تصور دینا تاکہ بڑے ہونے پر وہ حجاب کو بوجھ اور قید کے بجائے اپنا فخر سمجھے کہ یہی ہے رخت سفر
نور کارواں کے لیے ۔۔۔۔
تحریر: نازمین عامر