گذشتہ روز ٹک ٹاک ویڈیو بنانے پر ڈولفن اہلکار کو معطل کردیا گیا۔سرکاری ملازمت کی بجائے ایسی بے ہودگی کرنے پر یقینی طور پر ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔رواں مہینے میں ہی اسلام آباد میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے پرخاتون پولیس اہلکار کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔once again شاباش
لیکن دوسری طرف اعلیٰ پولیس افسران چلتے پھرتے ماڈلنگ کررہے ہیں،معزز شہریوں کی پرائیویسی خراب کرکے انکی ویڈیوز بناکر بھی لائک اور ویوز بٹورے جارہے ہیں۔ایک طرف ٹک ٹاک ویڈیو پر چھوٹے ملازمین کو معطل اور نوکریوں سے برخواست کیا جارہا ہے تو دوسری طرف پی ایس پی افسران کو شاباش دی جارہی ہے،صوبائی سربراہ خود اینکر بن کر ڈی پی او کی ایکٹنگ کی تعریف کررہے ہیں کہ شاباش احمد تمہاری ویڈیو بہت وائرل ہوتی ہیں۔ احمد تمہارا فلموں میں کام کا بھی ارادہ ہے۔خانیوال والے لڑکے (ڈی پی او) کا بھی فلموں میں آنے کا ارادہ ہے ۔چاہئے تو یہ تھا کہ انکو شاباش دینے کی بجائے نوکری سے برخاستگی کا لیٹر تھما کر کہا جاتا کہ جاؤ احمد بیٹا تم فلموں میں ہی کام کرو پولیس کو تمہاری ضرورت نہیں۔ پولیس کا کام ایکٹنگ نہیں عوام کی حفاظت کرنا ہے۔اس غریب عوام کی حفاظت جس کے ٹیکسوں سے ناصرف تمہیں تنخواہ ملتی ہے بلکہ اسی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کے پیسے سے تم ایکٹنگ کررہے ہو۔جاؤ احمد بیٹا پولیس کو بخش دو،پولیس ایک ڈسپلن فورس ہے یہاں محنت اور ایماندار ی سے عوام کی حفاظت اور خدمت کرنے والے افسران چاہئے ایکٹر نہیں۔
”کیری آن جٹا“فلم کامشہور زمانہ ڈائلگ
ساڈ۔۔۔۔۔۔۔۔تے تواڈا۔۔۔ٹومی یاد آرہا ہے
جناب عالی اصل دو قومی نظریہ تو یہ ہے کہ وہی کام رینکر کرے تو معطلی اور نوکری سے برخاسگی، پی ایس پی کرے تو شاباش بیٹا تمہاری ویڈیو پر بہت اچھے ویوز آتے ہیں۔
حکومتی بے اختیاری پر ترس آتا ہے کہ وہ اس قدر بے بس و بےاختیار ہوچکے ہیں کہ سرکاری افسران کو اس بیہودگی سے روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
پولیس اوردیگر افسران جو اپنا سرکاری فریضہ،اصل ڈیوٹی چھوڑ کر ٹک ٹاک ،فیس بک اور یوٹیوب ویڈیوز بنانے میں لگے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر حکومت بے بس ہے تو کیا باقی ادارے بھی ایکشن لینے سے قاصر ہیں؟ کیا ہماری ایجنسیز اس لاقانونیت کی رپورٹ نہیں بھیج رہیں؟
کیا سیکرٹری سروسز اور سیکرٹری اسٹیشلمنٹ ڈویژن بھی سول سروس کی اس بے توقیری پر خاموش رہیں گے یا اپنا آئینی فریضہ ادا کرتے ہوئے ان ”ٹک ٹاک سٹارز“کے خلاف قانونی کاروائی کا حکم صادر فرمائیں گے۔آخر پر چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ خدارا قوم کے پیسے سے افسران کی عیاشی اور ایکٹنگ بند کروائی جائے۔رینکرافسران کی طرح اعلیٰ افسران کو بھی نوکریوں سے فارغ کیا جائے کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔
کیا آج تک آپ نے کسی آرمی افسر تو درکنار کسی عام فوجی اہلکار کو بھی اس طرح سوشل میڈیا پر ویڈیو بناتے دیکھا۔ہرگز نہیں کیونکہ آرمی ایک ڈسپلن فورس ہے وہاں سوشل میڈیا پر ویڈیو کا تصوربھی نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام آرمی سے محبت کرتے ہیں۔آرمی کی بطور ادارہ عزت کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ایسی کسی جعل سازی کا حصہ نہیں بنتے۔حتی کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سمیت دوسرے سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران میں بھی سوشل میڈیا ایکٹنگ والی جہالت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔جب تک مجسٹریسی نظام بحال تھا سول سروس اپنی(Grace) قائم رکھے ہوئے تھی۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com